چودھری فواد: اب اور تب؟ : تحریر سہیل وڑائچ


چودھری فواد حسین آج کل اڈیالہ جیل میں ہیں، کل کے وفاقی وزیر کو چند دن پہلے سر اور منہ پر کالی ٹوپی پہنا کر عدالت میں لایا گیا، مگر آج کے میرے کالم کا موضوع اب کا چودھری فواد نہیں، تب کا چودھری فواد ہے۔ یہ کوئی 30 برس پرانا قصہ ہے 1993یا 1994ء کی بات ہے فواد کے چچا چودھری الطاف حسین پنجاب کے گورنر تھے، میں قلم مزدور کی حیثیت سے دبنگ گورنر کے سیاسی خیالات سننے یا ان سے انٹرویو کیلئے گورنر ہاؤس جایا کرتا تھا ،ایسے ہی کسی وزٹ میں چودھری فواد سے گورنر ہاؤس میں ملاقات ہوئی، چودھری فواد اس زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کےطالب علم تھے اور اپنےچچا گورنر چودھری الطاف حسین کے پاس گورنر ہاؤس میں ہی مقیم تھے۔ چودھری فواد سے جو تعارف 30 سال پہلے ہوا تھا وہ مشترکات کی وجہ سے دوستی میں بدلتا گیا۔ کتابوں کا مطالعہ، تاریخ، سیاست اور صحافت میں دلچسپی وہ مرکزی موضوعات تھے جو ہمارے درمیان زیر بحث رہتے۔

وقت گزرا تو ایک روز چودھری الطاف کا بطور گورنر ہی انتقال ہوگیا، مجھے گورنر ہاؤس سے چودھری الطاف کی لاش کے ساتھ روتے ہوئے چودھری فواد کی روانگی کا منظر آج بھی یاد ہے، پھر چودھری فواد نے لاہور سے ہی قانون کی ڈگری لی اور یہیں وکالت کا دفتر بھی بنایا اس دوران یہ روزانہ کا معمول تھا کہ ہر روز گھر کے فون پر صبح ہی صبح چودھری فواد کی کال آتی، سیاست، صحافت اور تازہ ترین حالات پر تفصیلی گفتگو ہوتی۔ سالہا سال تک چودھری فواد کا یہ معمول رہا کہ وہ جو بھی کتاب پڑھتا اس کے بارے میں مجھے ضرور بتاتا، میں نےبھی تاریخ، سیاست اور معاشرے کے حوالے سے فواد کو کئی کتب سے متعارف کروایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ رشتہ مضبوط ہوتا رہا۔

چودھری فواد اور اس کے دو پارٹنر دوستوں راجہ عامر خان اور ملک محمد احمد خان (جو آج کل ن لیگ کے اہم رہنما ہیں) نے وکالت کا دفتر کھولا ہی تھا کہ چودھری فواد کے چچا چودھری افتخار حسین لاہور کے چیف جسٹس بن گئے، فواد محنتی تھا مگر اس وقت بہت جونیئر تھا۔ ہمارے رواج کےمطابق چچا کے چیف جسٹس بنتے ہی اس کی وکالت چمک اٹھی۔ اس سے تًھوڑا عرصہ پہلے چودھری فواد عملی سیاست میں بھی کود چکے تھے مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب پیپلز پارٹی پنجاب کے راؤ سکندر اقبال سے چودھری فواد کی ملاقات میں اسے شعبہ اطلاعات کا عہدہ دیا گیا تھا۔

وقت گزرتا رہا جنرل مشرف کا مارشل لا آیا ، مسلم لیگ ق کی داغ بیل پڑی تو جہلم کایہ جاٹ خاندان چودھری الطاف کے صاحبزادے فرخ الطاف کی سربراہی میں ق لیگ میں چلا گیا۔ چودھری فرخ الطاف گجرات کے چودھریوں کے قریب تھے اوپر سے چچاافتخار چودھری چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تھے۔ایسے میں چودھری فرخ ضلع جہلم کے ناظم اور چودھری فواد کے ماموں چودھری شہباز حسین وفاقی وزیر بن گئے۔ چودھری فواد کا اس زمانے میں سیاسی کردار بہت محدود تھا البتہ ان کا سارا زور وکالت پر تھا۔تاہم جنرل مشرف کے خلاف عدلیہ کی تحریک چلی تو اس وقت چودھری فواد جنرل مشرف کے قریب ہوگئے اور پھر بعد ازاں اقتدار سے رخصتی کے بعد ان کی نئی جماعت میں شامل ہوگئے، چودھری فواد اس جماعت کو مقبول بنانے کیلئے کافی متحرک ہوئے لیکن کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ جنرل مشرف کی اقتدار سے رخصتی کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بنی، زرداری صاحب صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بن گئے۔ چودھری فواد،گیلانی خاندان کے پرانے شناسا تھے اسی تعلق کے حوالے سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں وزیر کے عہدے کے برابر کا مشیر بنا لیا اور یوں وہ گیلانی صاحب کے ترجمان بن گئے۔ اسی دوران بلاول بھٹو سے بھی ان کی گاڑھی چھننے لگی مگر یہ دور بھی گزر گیا۔ عمران خان کا ستارہ چڑھنے لگا تھا نواز شریف کےتیسرے دور کا زوال شروع تھا، پانامہ ٹرائل شروع ہونے سے پہلے ہی چودھری فواد تحریک انصاف میں شامل ہو چکے تھے۔

چودھری فواد سیاست، وکالت اور صحافت تینوں کے شناورتھے اسی لئے پانامہ کیس میں تحریک انصاف کی ترجمانی کرتے کرتے نہ صرف مقبول ہوئے بلکہ تحریک انصاف کے ستون بن گئے، انتخابات ہوئے تو نہ صرف ٹکٹ ملا اور وفاقی وزیر اطلاعات بن گئے بلکہ ملکی صحافت کا دھارا بدلنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔

وفاقی وزیر اطلاعات کی حیثیت سے ان کی پالیسیوں کا میں شدید ناقد رہا اور انہیں یہ کہتا رہا کہ آپ جنرل باجوہ، جنرل عاصم باجوہ اور جنرل آصف غفور کے میڈیا مخالف ایجنڈے کو آگے بڑھارہے ہیں تاہم چودھری فواد یہ ماننے کو تیار نہ تھے اور ہر روز یہ بیان دیتے کہ میڈیا کا بزنس ماڈل ٹھیک نہیں ہے۔ جنرل باجوہ کہتے تھے کہ اینکرز کی تنخواہیں ہم سے بھی زیادہ ہیں، سوچ یہ تھی کہ میڈیا کی مالی آمدنی روک کر اس کو اپنے طریقے سے چلایا جائے۔ اسی دوران کئی اتار چڑھاؤ آتے رہے، چودھری فواد جنرل باجوہ اور مقتدرہ کے ہمیشہ قریب رہے اس بنا پر وزیر اعظم عمران خان نہ صرف انہیں ٹوکتے تھے بلکہ انہیںفوج کا آدمی کہہ کر مذاق بھی اڑایا کرتے تھے۔ جنرل باجوہ نے نہ صرف چودھری فواد کو وفاقی وزیر داخلہ بنانے کی سفارش کی بلکہ جب عثمان بزدار کو ہٹانے کی باتیں ہو رہی تھیں تو اس وقت کی مقتدرہ نے عبدالعلیم خان کے علاوہ جن ناموں کو فیورٹ قرار دیاتھا ان میں چودھری فواد کا نام بھی شامل تھا۔

تحریک انصاف کے اقتدار سے نکلنے کے بعد اپنے لیڈر عمران خان کی طرح چودھری فواد بھی توازن کھوبیٹھے تھے ،انہیں پاکستانی مقتدرہ کی طاقت بھول چکی تھی اور ان کا خیال تھا کہ عوام کاسمندر مقتدرہ سمیت سب کو بہا کر لے جائے گا۔ اس جذباتی سوچ کےباوجود چودھری فواد فوج سے لڑنے کے حق میں نہیںتھا، اسی لئے 9 مئی کی منصوبہ بندی کرنے والی ٹیم میں اسے شامل ہی نہیں کیا گیا تھا، مانگنے کے باوجود اسے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ بھی نہیں دیا گیا تھا۔ 9 مئی جہاں عمران خان کی مقبول سیاست کو بہا لے گیا وہاں چودھری فواد کے سیاسی کیریئر کیلئے بھی سوالیہ نشان بن گیا۔ چودھری فواد کی گرفتاری ہوئی، سپریم کورٹ میں گرفتاری سے بچنے کیلئے بھاگنے کی ویڈیو آگئی اورپھر ایک روز ان کے تحریک انصاف چھوڑنے کی خبر بھی آگئی، جس روز وہ تحریک استحکام کے پہلے اجلاس میں گئے اس روز بھی وہ بادل نخواستہ گئے اور بعد ازاں بھی وہ اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہونے کی وجہ سے اس میں متحرک ہونے سے گریزاں رہے۔ چودھری فواد کی اپنے کزن چودھری فرخ الطاف سے دوریاں ہو چکیں، فرخ الطاف ن لیگ میں ہیں، چودھری فواد، ن میں جا نہیں سکتے، تحریک استحکام انہیں جتوا نہیں سکتی،جہلم میں آزاد امیدوار کا جیتنا مشکل ہے، ایسے میں چودھری فواد جائے تو کہاں جائے؟ اسی کنفیوژن نے اسے اڈیالہ پہنچا دیا ہے، دیکھیں یہ کنفیوژن کب دور ہوگا؟؟؟

بشکریہ روزنامہ جنگ