جب نواز شریف کو 2000 ء میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں احتساب عدالت نے سزا سنائی تو اس کے فوراً بعد میں نے ایک کالم میں لکھا کہ ’’ ایک ملک میں جہاں یکے بعد دیگرے مختلف حکومتوں نے ناقص پالیسیاں اختیار کی ہیں اور وسیع پیمانے پر زیادتیاں روا رکھی گئی ہیں، وہاں سب سے معقول کام ماضی کو دفن کرنا ہوگا۔‘‘اس تجویز کا مطلب یہ نہیں کہ ماضی کو بھول جائیں، بلکہ یہ کہ آگے بڑھنے کی راہ نکالیں۔
میں نے خبردار کیا تھا کہ مفاہمت، شمولیت اور ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کیے بغیر ’’پاکستان مستقبل قریب میں سیاسی طور پر ایک فعال ریاست نہیں بن پائے گا۔‘‘ نوازشریف نے اٹک قلعے کے اندر ٹرائل کا سامنا کیا۔ واقعات نے تیئس سال قبل میری دی ہوئی وارننگ کی تصدیق کی ہے۔ اب جبکہ جیل میں ایک مقدمہ چل رہا ہے اور ایک اور سابق وزیراعظم کو سزا کا سامنا ہے، میں اپنی وارننگ دہرانا چاہوں گا۔
زیادہ تر نوجوان پاکستانی جنھیں روایتی سیاست دانوں سے نفرت کی فضا میں پالا گیا ہے، کے ذہن میں ماضی کے جبر اور ناانصافیوں کی کوئی یادیں نہیں ہیں۔ وہ صرف اس لیے مشتعل ہیں کیونکہ ان کے محبوب قائد کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔ تاہم پاکستان کی روایتی حرکیات میں تبدیلی کی کنجی پاکستان کی مشکل اور افسوس ناک تاریخ کو سمجھنے اور تسلیم کرنے میں مضمر ہے۔ ’’نظام کو تبدیل‘‘ کردینے کے نعرے پاکستان میں نئے نہیں۔ زیادہ تر پاکستانی انقلابی تبدیلیوں اور کایا پلٹ دینے والے حل کا جنون رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ قوم نے 1958 ء سے لے کر اب تک متعدد بار مکمل تبدیلی سے گزرنے کی کوشش کر دیکھی لیکن ہر ’’تبدیلی‘‘ کے بعد معاملات کم و بیش اسی ڈگر پر چلتے رہے۔ بدعنوانی، نااہلی اورقانون کی پامالی میں ممکن ہے کچھ درجے کی تبدیلی واقع ہوئی ہو لیکن یہ خرابیاں ختم نہیں ہوگئیں۔ شاید وقت آگیا ہے، جب ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ انقلاب کی شدید خواہش کے باوجود پاکستانی اپنی زندگیوں کو کیوں تبدیل نہیں کرپاتے؟
اگر دیگر اقوام کے تجربے سے کوئی رہنمائی لی جاسکے، سماج اور تبدیلیاں اور نظام حکومت ارتقائی مراحل کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ اور ارتقا کیلئے صبر درکار ہوتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ماضی کو حال ہی کا اٹوٹ انگ سمجھ کر قبول کیا جائے ۔ اس طرح ہر کامیاب ملک نے اپنا سیاسی نظام مرحلہ وار، بتدریج عمل سے آگے بڑھتے ہوئے قائم کیا ہے۔ ہر مرحلے پر ماضی میں حاصل کردہ کامیابیوں کو مستقبل میں جاری رکھا گیا، اور سرزد ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھا گیا۔
آج ہر کامیاب قوم جو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہے ، اپنے ماضی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی بنیاد پر مستقبل کو تعمیر کررہی ہے۔ تاہم پاکستان میں ماضی کو جھٹلانے کا رواج ہے۔ حکومت میں ہونیوالی ہر تبدیلی کو ہر حکمران انقلاب بتاتا ہے ۔ اس کی آمد سے پہلے ہونیوالے ہر اچھے کام کی نفی کرنے پر بہت زیادہ وقت اور توانائی صرف کی جاتی ہے ۔ نیز ہر ’’انقلابی لیڈر‘‘ کے حامی اس بیانیے کو دل و جان سے قبول کرلیتے ہیں کہ ان کا لیڈر ’’حق‘‘ پر ہے اور اس کے تمام مخالفین ’’باطل‘‘ ہیں ۔ سیاست ایک تسلسل کا نام ہے، یہ کوئی جز وقتی واقعہ نہیں۔حق بمقابلہ باطل کی تمثیل جدید قوموں کی ترقی میں کام نہیں دیتی۔ امریکہ میں ہر صدر کو، خواہ اس کی کوئی بھی خامیاں یا کارنامے ہوں، سرکاری طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ فرانس اپنے ماضی کے تمام رہنماؤں کا احترام کرتا ہے حالانکہ ان میں سے کچھ کی بہت سی ناکامیاں تھیں۔ بھارت ہر آنجہانی وزیراعظم کی یادگار بناتا ہے۔ راجیو گاندھی کو یہ اعزاز حاصل ہوا حالانکہ ان کے دور اقتدار میں بوفورس سودے سے متعلق تحقیقات جاری تھیں۔
مصر جمال عبدالناصر اور انور سادات کو عزت و احترام دیتا ہے گرچہ مصر ایک کی سیاسی میراث اور دوسرے کی اقتصادی پالیسیوں کو بہت پیچھے چھوڑکرآگے بڑھ چکا ہے ۔ عرب بادشاہ موجودہ حکمرانوں کی عزت افزائی کیلئے ماضی کے حکمرانوں کو غیر قانونی قرار نہیں دیتے۔ ماضی کو مستقبل کے نقطہ آغاز کے طور پر دیکھنا سود مند ہے۔ لیکن پاکستان میں انقلاب کیلئے مچلنے والے دل ’’پانچ ہزار افراد کو پھانسی پر لٹکا کر‘‘ نئے سفر کا آغاز کرنے کی دھن رکھتے ہیں ۔ اس سے ہر چند سال بعد افراتفری تو مچتی ہے، کوئی طویل المدت فائدہ نہیں حاصل ہوپاتا۔
پاکستانیوں کیلئے ماضی محض ایک گھناؤنا راز ہے جسے کسی تہہ خانے میں دفن کردینا چاہیے۔ ہم غلام محمد، اسکندر مرزا اور یحییٰ خان کی خوبیوں اور خامیوں پر بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ اسی طرح ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاالحق کا ذکر بہت کم ملتا ہے، باوجود کہ یہ افراد ایک طویل عرصے تک ہماری تقدیر کے حاکم رہے۔ پاکستان کے حالیہ حکمرانوں میں سے ہر ایک کو ان کے حریفوں نے عدالتوں میں گھسیٹا ہے۔ یہ کہنا فیشن ہے کہ پاکستان کو ’قیادت کے بحران‘ نے تباہ کر دیا۔ درحقیقت پاکستان کا دائمی مسئلہ ’برداشت کے بحران‘ کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستانی متبادل نقطہ نظر کو برداشت نہیں کرتے اور نہ ہی مخالفین کے وجود کو تسلیم کرنے کے روادار ہیں۔ وہ تمام لوگ جو اپنے پیشروؤں کو ’بدمعاش اور لٹیرے‘ کہہ کر حمایت حاصل کرتے ہیں، انہی کے منصوبوں اور پالیسیوں کو جاری رکھے ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں یہ تسلیم کرنے کی اخلاقی جرات نہیں ہوتی کہ تسلسل حکمرانی کی ایک لازمی خصوصیت ہے۔
پاکستانی کلچر آف گورننس (اگر اسے ایسا کہا جاسکتا ہو) مطلق العنانی کے گرد گھومتا ہے۔ اس کیلئے تبدیلی کا واہمہ کھڑا کیا جاتا ہے حتیٰ کہ ان شعبوں میں بھی جہاں تبدیلی نہ تو مطلوب ہے اور نہ ہی ممکن ۔ پاکستان کو موثر آئینی چیک اینڈ بیلنس درکار ہے ۔ اس کی سیاسی جماعتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ داخلی انتخابات کے ذریعے پارٹی عہدیداروں کا چناؤ کریں ۔
پاکستان کی عدلیہ کو سیاسی مداخلت کا ہتھوڑا چلاتے ہوئے میڈیا کی توجہ اور تعریف کے شوق سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ سول سروسز کی آزادی کے ساتھ ساتھ سول ملٹری عدم توازن کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔ لیکن یہ سب کچھ انقلاب کی دھمکیوں اور جذباتی حامیوں کو بھڑکانے کی بجائے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے ہو ۔
سیاسی پہیے کو بار بار ایجاد کرنے کی مسلسل کوشش کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کئی بار ایک پیشرو کے سیاسی وجود کو مٹانے کیلئے تمام نظام کو مفلوج کردیا جاتا ہے۔ اگر ایک فعال سیاسی نظام کو استوار کرنا ہے تو اس سلسلے کو روکنا ہوگا۔ ماضی کو جھٹلانے اور مٹانے کی بجائے اسے تسلیم کر لیا جائے اور اس سے سیکھے گئے اسباق کی روشنی میں مستقبل کی تعمیر کی جائے تو پاکستان کی بہتر خدمت ہو گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ