موسم کے رنگ ڈھنگ، ناز نخرے اور اُتار چڑھاؤ ہمارے وجود کی شادمانی اور اداسی کا سبب بنتے ہیں۔ہماری ذات کائنات کا جزو ہے۔ کُل میں ہونے والی تبدیلیوں کا ہمارے وجود پر اثرانداز ہونا بالکل فطری ہے۔جس طرح گرمی سردی،بہار خزاں کی رتوں میں مخصوص فصلوں اور پودوں پر جوبن آتا ہے اسی طرح ہمارے وجود پر رنگ اور توانائیوں کا نکھار اترتا ہے۔ نومبر کا مہینہ عجیب ذائقوں، رنگوں اور سرگوشیوں کا موسم ہے۔ کہنے کو تو یہ خزاں کی شروعات ہے مگر خزاں بھی ایسی کہ جس میں خون میں رچی رومان کی مہک تخیل میں کہکشاں بھردے۔ آنے اور جانے والی رت گلے ملتی محسوس ہو، گرمی اور سردی کے درمیان کھڑی رُت میں اُجلی دھوپ اور نکھرا آسمان بہت بھلا لگتا ہے۔ ہم جنم جنم سے وٹامن ڈی کی کمی کے شکار لوگ صرف ان دو تین مہینوں میں ہی دھوپ کا ذائقہ چکھتے ہیں ورنہ باقی مہینے دھوپ سے بچتے گزر جاتی ہے۔ حالا نکہ صحت مند معاشروں کے مکین تو سخت موسموں میں بھی سمندر کنارے دھوپ سے وصل ضروری سمجھتے ہیں۔ پچھلے کئی سال سے لاہور کا نومبر اسموگ کی آلودہ دھند کا شکار ہوتا چلا آیا ہے۔ ہر شے پر میل کا جال تنا ہوا، ہر منظر ان دیکھی غلاظت میں اٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ایک عجیب سی بے رونقی، اداسی،خوف اور چڑچڑا پن گھروں کے اندر اور باہر پھیلتا دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ رات کے پچھلے پہر تک جاگنے والے شہر کی رفتار سہ پہر کے بعد سہم سہم جاتی ہے۔ بشر بھاگ بھاگ کرگھروندوں میں پناہ گزین ہونے کو بے تاب نظر آنے لگتے ہیں۔سڑکیں ویران ہونے لگتی ہیں اور دل بھی۔ہر سو چھائی ہوئی دھول مٹی کی چادر بصارت اور احساس پر ہی بھاری نہیں گزرتی۔ سانس کے نظام پر بھی قیامت ڈھاتی ہے۔اس بار بھی نومبر کی شروعات اسی طرح ہوئی۔کئی دن ہر لمحہ دل بھی بوجھل رہا اور فکرمندی کی دہلیز پر بیٹھی روح بھی زخم زخم ہوئی۔پنجاب حکومت نے اس قاتل حملہ آور کثافت میں کچھ کمی کرنے کیلئے ایک انتہائی اسمارٹ سے لاک ڈاؤن کا اعلان بھی کیا، کیلنڈر پر نشان لگے تمام پروگرام منسوخ کر دئیے۔ دفاتر، اسکول کالج اور کاروبار حیات سب بند ہوئے کہ کسی طرح سانس کی ہمواری قائم رکھی جا سکے لیکن فضا میں وہی آلودگی ڈٹی رہی۔ انسانی ذہن سوچ سوچ کےتھک ہارے کہ یہ میل کیسے دھلے گی،دنیا کے آلودہ ترین شہر میں رہنے کا جبر اپنی جگہ مگر جب ٹی وی کی اسکرین پر کئی بار یہ خبر چیختی سنائی دے تو مزاج پر اذیت کی شدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔خوبصورتی، چہل پہل اور زندہ دلی کے حوالے سے مشہور و معروف شہر کو دنیا کا کثافت زدہ مقام قرار دیا جانا ایک بدنامی کی مہر کی طرح ثبت ہونا اہل شہر کے لئے اذیت ناک سزا سے کم نہیں۔خبر نہیں تھی کہ کتنے دن ہم اس گندگی کے طوفان کو اپنے وجود اپنے گھروں اور گاڑیوں پر اٹھائے اٹھائے پھرتے رہیں گے۔ ایک مہینہ یا ڈیڑھ مہینہ۔ دل زیادہ اداس اور سانسیں زخمی ہوئیں تو خیال آیا۔اگر بچوں کا اسکول متاثر نہ ہو تو کچھ دن کسی اور شہر میں جا کر بسیرا کر لوں۔ انہی سوچوں میں گھڑی نے بتایا کہ میلا کچیلا دن ڈھل چکا ہے۔ تاروں بھرے آسمان کی زمین سے راہ و رسم نہ رہے تو صحن میں لگی زیادہ پاور کی مصنوعی روشنیاں بھی بے وقعت ہو جاتی ہیں۔ شدید اداسی وحشت بنتی رہی۔امید کا تارا نظر نہ آیا، بادلوں کے گرجنے سے آنکھ کھلی۔ تازہ ہوا کے شفاف جھونکوں نے بڑھ کے سلام کیا۔ دُھلے دُھلے منظر میں پودے اور پرندے چہچہاتے نظر آئے۔ اجلی اور چمکیلی دھوپ دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔
آئیے فطرت سے دوستی کر لیں۔اس کے دکھ درد سنیں، اس پر ظلم کرنا بند کر دیں۔ہواؤں اور بادلوں کے رستے نہ روکیں۔پھولوں سے کھلنے اور چہکنے والی رتوں کو دور نہ کریں۔ زمین کی کوکھ میں زہر بھر کر اسے بانجھ نہ بنائیں۔ فضا میں گاڑیوں، فیکٹریوں اور آلائشوں کا دھواں اُچھال کر زمین اور آسمان کے درمیان دیوار نہ کھڑی کریں۔ اپنے ارد گرد کثافت کی دھند جمع کرکے خود کو ماسک کے پیچھے چھپانے پر مجبور نہ ہوں۔ اس بار بارش نے کمال کر دیا مگر ہر بار بارش بچانے نہیں آئے گی۔ اس کثافت کی بدنامی سے خود کو اور شہر کو نجات دلانے کیلئے ہم سب کو بارش جیسا کردار اپنانا ہے۔بقول حسین مجروح
جو منہ کو آرہی تھی وہ لپٹی ہے پاؤں سے
بارش کے بعد خاک کی سیرت بدل گئی
بشکریہ روزنامہ جنگ