مسلم حکمرانوں نے اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کیے : تحریر انصار عباسی


ایک مہینے سے زائد کا عرصہ ہو گیا، اسرائیل کی غزہ پرتباہ کن بمباری کو (جو اب بھی جاری ہے)۔ گیارہ ہزار فلسطینی جن میں تقریباً آدھی تعداد بچوں کی ہے شہید ہو چکے ہیں۔اس کے بعد مسلم امہ کے رہنما یعنی عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان گزشتہ روز سعودی عرب میں آخر کار مل کر بیٹھ ہی گئے لیکن زبانی جمع خرچ کےسواکچھ بھی نہ کر پائے اور ایک مشترکہ اعلامیہ، ایک مذمت، چند مطالبات کر کے چل دیے ۔ اس طرح گویا انہوں نے عملاً اسرائیل کی دہشت گردی کو تقویت بخشی، فلسطینیوں کیلئے ہمدردی کے دو بول بول کر اُنہیں ظالم اسرائیل ہی کے رحم کرم پر چھوڑ دیا اور غزہ کویہ پیغام دیا کہ ہم سے کوئی امیدمت رکھنا۔ امریکا، برطانیہ،یورپ وغیرہ کو بھی بتا دیا کہ ہم آپ کو ناامید نہیں کریں گے اور ظالم اسرائیل کے ظلم پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں گے۔ اُنہوں نے ظالم اسرائیل اور اُس کی دہشت گردی کا کھلا ساتھ دینے والے امریکا، برطانیہ اور یورپ کو یہ بھی بتا دیا کہ ہم آپ کو ناراض نہیں کرسکتے ،اس لیے جو کریں گے وہ صرف زبانی کلامی ہی کریں گے عملاً نہ ہم اسرائیل سے تعلقات ختم کریں گے، نہ اُس سے تجارت کو روکیں گے، نہ اُس کا تیل اور گیس بند کریں گے نہ ہی اُس کی مصنوعات کا تمام مسلمان ممالک میں بائیکاٹ کریں گے۔ ہم فلسطینیوں کی محض زبانی کلامی مدد کریں گے۔ اُن کے دفاع کیلئے نہ کوئی فوجی امداد مہیا کی جائے گی نہ اسلحہ۔ مسلم امہ کے یہ حکمراں پچھلے ایک مہینے سے فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم ڈھائے جانے پر کچھ نہ کرنے کی وجہ سے پوری دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کی بدعائیں سمیٹ رہے تھے۔ اب بیٹھے تو امید تھی کہ کچھ تو کریں گے لیکن اُنہوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔البتہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو مایوس ضرور کیا۔ اگرکچھ کیا بھی تو، اسرائیل کے حق دفاع کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے غزہ میں فوری جنگ بندی،اسرائیلی جارحیت روکنے اور امدادی کارروائیاں شروع کرنے کا مطالبہ۔ یہ بھی مطالبہ کیا کہ صہیونی ریاست کو ہتھیاروں کی فروخت روکی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے حق دفاع کا دعویٰ اور غزہ کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کا کوئی بھی سیاسی حل مسترد کیا گیا۔یہ بھی مطالبہ کر دیا کہ سلامتی کونسل اسرائیلی جارحیت رکوانے کیلئے فیصلہ کن اور مشترکہ قرارداد منظور کرے۔سلامتی کونسل کی طرف سے فیصلہ کن قرارداد منظور نہ ہونے سے اسرائیل کو اپنی جارحیت جاری رکھنے، معصوم شہریوں کو قتل کرنے اور غزہ کو نیست ونابود کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے، کانفرنس میں شریک سربراہان نے غزہ پر اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی جنگ کو مسترد کیا اور کہا کہ اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف حق دفاع کا دعویٰ کوئی جواز نہیں رکھتا۔ یعنی صرف مطالبے ہی کیے گئے، عملی طور پر کوئی ایک بھی قدم اُٹھانے کا فیصلہ نہ کیاگیا۔ خبروں کے مطابق چند ممالک نے مجوزہ قرارداد میں اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو تیل کی سپلائی روکنے، ان کیساتھ معاشی اور سفارتی تعلقات توڑنے اور امریکا پر خطے کے دیگر ممالک کو ہتھیار اور بموں کی فراہمی کیلئے عرب ممالک کی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی کا مطالبہ کیا لیکن اس پر اتفاق نہ ہو سکا۔حماس نے غزہ سے جاری اعلامیہ میں عرب اور مسلم ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی سفارتکاروں کو ملک بدر کریں، جنگی جرائم میں ملوث اسرائیلیوں کیخلاف قانونی کمیشن تشکیل دیں اور غزہ کی از سر نو بحالی کیلئے فنڈقائم کریں۔اگر سچ پوچھیں تو اسلامی ممالک کے سربراہان نے غزہ اور فلسطینیوں کا ساتھ دینے کی بجائے ظالموں کا ساتھ دیا۔ جو کر سکتےتھے وہ بھی نہ کیا۔ صرف مسلم امہ کو بدنام کیا، دنیا بھر کے مسلمانوں کو مایوس کیا، مظلوم فلسطینیوں اور غزہ میں شہید ہونے والے بچوں سے غداری کی اور دہشت گرد اسرائیل اور اُس کا ساتھ دینے والی ظالم مغربی ریاستوں کو مضبوط کیا۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو اس سے بہتر تھا کہ گھر ہی بیٹھے رہتے۔ دنیا میں ذلت کمائی اور اپنی آخرت کوبھی داؤ پر لگا دیا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ