اب تک اضطراب کی نہ جانے کتنی آندھیاں سہی ہیں۔ بیزاری کے کتنے طوفان دیکھے ہیں۔ آنکھوں میں کتنے آتش فشاں محسوس کیے ہیں۔
چھ دہائیوں سے ایک دو سال زیادہ سے قلم کاغذ دماغ دل سنبھالنے میں مصروف ہوں۔ اس مملکت خداداد پر سارے تجربے ہوتے مشاہدہ کیے ہیں۔ ایوب خان کا مارشل لا، پھران کی صدارت اور تاریخی تقریر کہ ’’ میں ملک کی تباہی پر صدارت نہیں کرسکتا‘‘۔ پھر یحییٰ خان کی ملک کو برباد اور دو لخت کرنے والی صدارت اور سپہ سالاری بھی ہم پر گزری۔ بائیں بازو کی عظیم تحریکیں۔ شوکت اسلام کے جلوس۔ پھر ایک سویلین کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنانے کی مجبوری۔پھر ملک کو فوجی شکست کے المیے سے نفسیاتی طور پر بحال کرنے۔ جگر لخت لخت کو جمع کرنے والے طاقت ور۔ وژنری وزیر اعظم کی برطرفی اور شہادت۔ 1985میں غیر جماعتی انتخابات۔ 1988 سے الیکشن اور شراکت اقتدار کے مزے۔ پھر فوجی حکومت مگر اس کو مارشل لا نہ کہنے اور چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر کی بجائے چیف ایگزیکٹو کہلانے کی آزمائش، پھر دوبارہ شرکت اقتدار۔جب بھی عوام مکمل انقلاب کی طرف جاتے دکھائی دیئے تو انہیں کچھ مصنوعی تبدیلیوں کے ذریعے بہلایا گیا۔ محروموں کو استحصالیوں کی حویلیوں تک جانے نہیں دیا گیا۔اب جتنا اضطراب ہے۔ عوام میں جتنی بیداری ہے۔ جتنا شعور ہے۔ جس کا اظہار سوشل میڈیا پر ہر لمحے نظر آتا ہے۔ یہ ہم نے ان دہائیوں میں کبھی تماشا نہیں کیا ہے۔
آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں سے دوپہر کے کھانے پر مل بیٹھنے اور آپس میں ہر موضوع پر تبادلۂ خیال کا دن۔ ہر ہفتہ ان کے ذہنوں میں نئے سوالات کاشت کردیتا ہے۔ وہ جاننے کے کرب سے دوچار ہوتے ہیں ۔یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات انہیں گوگل یوٹیوب چینل پر نہیں ملتے بلکہ اور زیادہ تذبذب میں ڈال دیتے ہیں۔ ان کی کلائیاں اسمارٹ فون کھنگالتے تھک گئی ہیں۔ ان کی آنکھیں سرخ ہوگئی ہیں۔ نماز عصر کے بعد آپ اپنے محلے میں پڑوسیوں سے ملیں۔ حال احوال جانیں۔ بہت سی الجھنیں آپ خود مل کر سلجھا سکتے ہیں۔
آپ جاننا چاہیں گے کہ اتنے طویل عملی تجربات کے بعد میں آگے کیا دیکھ رہا ہوں۔ قریب آئیے میں دل کی بات کررہا ہوں جہاں مجھے خوشی ہے کہ واہگہ سے گوادر تک میرے ہم وطنوں کی، بلوچستان، سندھ،خیبر پختونخوا، پنجاب اور جنوبی پنجاب کی آنکھوں میں ایک چمک نظر آرہی ہے سیاسی اور سماجی شعور اپنے شباب پر ہے۔ اقتصادی ادراک نقطۂ عروج پر ہے۔ وہیں میری تشویش یہ بھی ہے کہ اس موسم اضطراب میں جیسے لیڈر اور عوام میں جڑیں رکھنے والی جیسی ملک گیر سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے۔ وہ وجود نہیں رکھتی۔ وہ جو گوگل اکثر تلاش کے بعد کہتا ہے کہ کوئی معلومات آپ کی تلاش سے Match نہیں کرتیں۔ اس وقت قوم کو جن چیلنجوں، مسائل اور مصائب کا سامنا ہے۔ کوئی پرانی نئی پارٹی ان سے نبرد آزمائی کی اہلیت رکھتی دکھائی نہیں دیتی۔ اتنے پیچیدہ، گہرے، عمودی اور افقی بحرانوں سے قوم کو نکالنےکیلئے ایک لیڈر کے پاس جو ٹیم ہونی چاہئے۔ وہ کہیں نہیں ہے۔ معیشت خاص طور پر اس وقت بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑ رہی ہے۔ مہنگائی ایک بد مست ہاتھی کی مانند خواہشات کو روند رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی پہلے اس نئے پاکستان میں ہر صوبے میں موجود تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان دو لخت اس لیے بھی ہوا تھا کہ 1970 میں کوئی مقبول پارٹی دونوں بازوؤں میں نہیں تھی۔ جماعت اسلامی کے علاوہ کسی پارٹی نے دونوں بازوؤں میں سارے انتخابی حلقوں میں امیدوار کھڑے نہیں کیے تھے۔ افسوس کا مقام ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس وقت بڑے خلا کو اہمیت نہیں دی۔ اب پی پی پی سندھ تک محدود ہے۔مسلم لیگ (ن) اندرونی اور بیرونی اسٹیبلشمنٹ کو محبوب ہے۔ لیکن اس نے سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں پہلے بھی اپنی تنظیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ اب اپنے گڑھ پنجاب میں بھی اس کی مقبولیت کم مخالفت زیادہ ہے۔ پی ٹی آئی سے جذباتی ہمدردی پورے ملک میں یقینا ًہے۔ لیکن تنظیمی طور پر وہ پورے پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ یہ تنظیمی صورت حال سیاسی نقشے پر جگہ جگہ سرخ نشانات لگاتی ہے۔ اور الیکشن کے ممکنہ نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایسا کمزور سیاسی منظر نامہ یہ یقین نہیں دلاتا کہ ہم سارے اقتصادی، سیاسی، سماجی، زرعی،نفسیاتی دریا عبور کرسکیں گے کہ نہیں۔اپنے محدود علم اور مسدود مشاہدے کی بنا پر کچھ چیلنجوں کی نشاندہی کی جرأت کروں گا۔ آپ مجھ سے زیادہ با خبر ہیں۔ آپ کے علم میں جو مزید معرکے ہوں۔ وہ شامل کرلیں۔ تو آنے والے دَور کی اک دھندلی سی تصویر آپ کے سامنے آجائے گی۔ ایک طرف تو ہمیں سیاسی لیڈروں میں بھی کوئی وقت کا مقابلہ کرنے کا مکمل اہل دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری طرف سرکاری عہدوں کا بھی یہی حال ہے۔ عہدے بہت بڑے بڑے ہیں، حساس ہیں۔ مگر ان پر بیٹھے لوگ بہت چھوٹے ہیں۔
گزشتہ چھ دہائیوں میں اس بحران سے کہیں کم شدت کی صورت حال میں ترجیحات اور تقاضوں کا جو انداز دیکھا ہے۔ اس کی روشنی میں کچھ اس طرح سے مراحل کی ترتیب بنتی ہے۔ 1۔ عوام کا ریاست پر اعتماد بحال کرنا۔ 2۔ اس کیلئے خود اس لیڈر کا اپنے آپ پر اپنی پارٹی پر بھروسہ قائم کروانا۔ 3۔ معیشت کی بحالی کیلئے دس پندرہ سال کا ایک امکانی منصوبہ دینا۔4۔ صنعت کاروں، اندرونی بیرونی سرمایہ داروں اور محفوظ کاروبار کی یقین دہانی۔ 5۔ ٹیکس وصول کرنے والے اداروں اور ٹیکس دینے والے افراد اور کمپنیوں کا ایک دوسرے پر اطمینان۔6۔ ٹریڈنگ کی بالادستی اور درآمدات پر کنٹرول۔7۔مینو فیکچرنگ کی بحالی اور برآمدات میں تیزی سے اضافہ۔8۔ غربت کی لکیر سے نیچے جانے کی تیزی روکنا اور کروڑوں پاکستانیوں کو لکیر سے اوپر لانا۔9۔ 60فی صد نوجوان آبادی کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا۔ 10۔ اپنے قدرتی وسائل اور انسانی وسائل پر انحصار کی اسکیمیں۔11۔ تعمیرات کی صنعت کو تحفظ اور استحکام دینا۔12۔ بلدیاتی اداروںکو ان کے مکمل آئینی اختیارات دینا۔13۔ 200سے زیادہ کلیدی عہدوں پر صرف اور صرف اہل افراد کی تقرری۔14۔ کرپشن روکنے کیلئے قانون کی سخت حکمرانی۔15۔ فلسطین پر اسرائیل کی اندھی جارحیت اور اس سے پہلے یوکرین جنگ کی روشنی میں اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرنا۔
ان چیلنجوں سے نمٹنا مشکل ضرور ہے نا ممکن نہیں ہے۔ ان پہاڑوں میں دھماکے کرکے راستے بنانا ہوں گے۔ اس کیلئے اشرافیہ کو مثالی قربانیاں دینا ہوں گی۔ 8 فروری سے پہلے ہی سوچ لیں کہ اب کے حکمرانی اتنی آسان نہیں ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ