بھارت میں مقیم اسکاٹش نژاد ولیم ڈارلیمپل اس وقت برصغیر کی تاریخ پر سب سے بڑی زندہ اتھارٹی ہیں، انکی کتاب آخری مغل( THE LAST MUGHAL)نے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی زندگی ، انکے خلاف مقدمہ، جنگ آزادی اور انکی اسیری کے سو سالہ خفیہ راز کھول دیئے۔ انکی بعد میں شائع ہونے والی کتاب برطانیہ کی پہلی افغان جنگ کے حوالے سے ہے۔ RETURN OF A KINGکے نام سے لکھی گئی کتاب میں امریکہ ، روس، یورپ اور دنیا بھر کے ہر اس ملک کو متنبہ کیا گیا ہے کہ افغانستان پر جو کوئی بھی حملہ آور ہوتا ہے وہ پھنس جاتا ہے کیونکہ افغانستان میں لشکر کا لشکر سے سامنا کم ہوتا ہے زیادہ لڑائی چھاپہ مار ہوتی ہے جس میں لشکر کا نقصان زیادہ ہوتا ہے اور چھاپہ ماروں کا کم۔ یہ کتاب اس لئے یاد آئی کہ آج کل پاک افغان کشیدگی زوروں پر ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اس مجبوری کی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
دنیا کی ہر جنگ کی مادی، معاشی اور نفسیاتی وجوہات بھی ہوتی ہیں، قوموں اور ملکوں کے درمیان نفرت، بغض اور حسد جنگ کی نفسیاتی وجہ بنتا ہے ۔افغان کھلاڑیوں کا پاکستانی کرکٹ ٹیم سے نفرت کا رویہ اور افغان شائقین کا پاکستانیوں سے جھگڑا انہی تضادات کا مظہر تھا ۔ابھی چند روز پہلے پاکستان کے سنجیدہ شہریوں کی، میکسویل کی طرف سے افغان کرکٹ ٹیم کی پٹائی پر پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ملک کی اکثریت افغان حکومت اور اس کے شہریوں کے رویوں سے تنگ ہو کر انکے خلاف ہو چکی ہے ،اسی لئے نفسیاتی طور پر میکسویل، پاکستانیوں کا ہیرو ٹھہرا۔ پاک افغان کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ تو پاکستانی طالبان کی ملک کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں ہیں جو رکنے میں نہیں آ رہیں ۔میانوالی ایئر بیس پر حملہ ان کارروائیوں کی تازہ ترین مثال ہے پاکستان کا خیال ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت نے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو پناہ دے رکھی ہے، یہ پاکستانی طالبان محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھ کر ملک کے اندر دہشت پھیلاتے ہیں اور پھر واپس افغانستان چلے جاتے ہیں۔ پاکستانی حکومت کئی بار ان طالبان دہشت گردوں کو روکنے کے حوالے سے حکومت افغانستان سے درخواست کر چکی ہے مگر اسے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی ۔ کئی حلقوں کی طرف سے یہ تجویز زیر گردش رہی کہ پاکستان کو افغانستان کے اندر گھس کر دہشت گردی کے ان ٹھکانوں کو تباہ کر دینا چاہئے، اس حوالے سے امریکہ نے بھی ایسی کارروائی کی حمایت کی ہے۔مگر ایسی کسی کارروائی کا ردعمل خطرناک ہو سکتا ہے اور یہ خطرہ بھی ہے کہ کشیدگی اور باہمی عدم اعتماد کے اس ماحول میں ایک نئی افغان جنگ چھڑ جائے۔
تاریخ کا جائزہ لیں تو خوفناک حقائق سامنے آتے ہیں، پاکستان کے سب سے مشہور تاریخ دان پروفیسر دانی نے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ تھیوری پیش کی تھی کہ حملہ آور ہمیشہ شمال کی طرف سے آئے ہیں اور انہوں نے وہاں سے آ کر پنجاب اور پورے ہندوستان کو فتح کیا ہے گویا افغانستان کے اندر مداخلت ایک نیا شمالی محاذ کھولنے کے مترادف ہو گا ہم بھارت کے ساتھ پہلے بھی مشرقی محاذ پر چار جنگیں لڑ چکے ہیں ایسے میں ایک نئی جنگ کے متحمل ہو سکیں گے یا نہیں؟ ساتھ ہی ساتھ ایک بالکل متضاد تھیوری بھی گردش میں ہے اور وہ کچھ یوں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں اس کے جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے کابل تک کو تاراج کر دیا تھا اس لئے اگر دہشت گردی نہ رکی تو مجبورا پاکستان کو ان دہشت گردوں کے افغانستان کے اندر ٹھکانوں پر حملہ کرنا ہو گا بعد میں چاہے اس کی جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔
پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کی 75 سالہ تاریخ میں روشن باب کم اور تلخ پہلو زیادہ رہے۔ قیام پاکستان کے فورا بعد ہی سے افغانستان نے نہ صرف اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی مخالفت کی بلکہ آغاز ہی میں ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر پاکستان سے تلخیوں کا آغاز کر دیا بعد ازاں دیر تک مسئلہ پختونستان کے نام پر بھی پاک افغان کشیدگی رہی۔ روس کی مدد سے افغانستان میں ظاہر شاہ اور بعد میں صدر داؤد کا تختہ الٹنے کے بعد جو کمیونسٹ حکومتیں آئیں وہ پاکستان میں باقاعدہ تخریب کاری کرواتی رہیں۔ دوسری طرف ریاست پاکستان بھی کھلے عام امریکہ کے ساتھ مل کر افغان مجاہدین کی مدد کرتی رہی اور یوں وہاں کی افغان حکومتوں کا پاکستان سے کھلی دشمنی والا تعلق استوار ہو گیا ۔ توقع تو یہ تھی کہ کیمونسٹ دور ختم ہونے یا حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے بھارت نوازوں کے بعد طالبان، پاکستان کے حامی بنیں گے۔ اسی وجہ سے پاکستانی ریاست اور اس کے اداروں نے دنیا بھر کو ناراض کر کے بھی خفیہ طور پر افغان طالبان کی حمایت جاری رکھی۔ دوحہ مذاکرات میں بھی اس بات کو یقینی بنایا کہ اشرف غنی کے جانے کے بعد طالبان ہی کو عنان اقتدار ملے، امریکی دستوں کی واپسی کے بعد طالبان کی حکومت بنانے میں بھی پاکستان نے مدد کی مگر حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی طالبان جن کیلئے پاکستان دنیا بھر میں بدنام ہوا وہ اپنے ہم مسلک پاکستانی طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو روکنے میں پاکستان کی مدد کرنے کو تیار نہیں بلکہ انہوں نے تو سرکاری طور پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو روکنا انکی ذمہ داری نہیں ہے حالانکہ حکومت پاکستان کے پاس اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ پاکستانی طالبان کو افغان طالبان اور ان کی حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔
آیئے آخر میں جائزہ لیں کہ اگر ہم مجبورا جنگ یا افغانستان کے اندر آپریشن کی طرف دھکیلے گئے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ آج کے دور میں جنگیں اور معیشت باہمی متضاد ہیں، جنگ ہمیشہ معیشت کو لے بیٹھتی ہے پاکستان کے عروج و زوال پرنظر رکھنے والے اکثر معیشت دان متفق ہیں کہ پاکستان کا معاشی زوال 1965 کی جنگ کے بعد سے شروع ہوا۔ اس بات کے مدنظر ضروری ہے کہ کھلی جنگ سے بہرصورت بچا جائے۔ سفارتی، معاشی اور دوسرے ذرائع سے طالبان حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ پاکستانی طالبان کی حمایت چھوڑ دے اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر ان طالبان کے اندر ہی پاکستان کا حامی گروپ ڈھونڈا جائے اور اس کی مدد کی جائے، ایک اور افغان جنگ، ملک کیلئے تباہ کن ہو گی….!
بشکریہ روزنامہ جنگ