امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کی ایک ریلی کے دوران یہ دعوی کیا ہے کہ جب عراق میں امریکی ڈرون نے ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کیا تھا، تب چیئرمین تحریک انصاف نے فون پر ان سے گرمی جوشی سے بات چیت کی تھی۔
اطلاعات کے مطابق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ انکشاف ہیوسٹن میں پبلک ریلی سے خطاب کے دوران کیا، ہیوسٹن میں پاکستانی خاصی تعداد میں رہتے ہیں، زیادہ تر پاکستانی ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کررہے ہیں، اس ریلی میں متعدد پاکستانی بھی شریک تھے ۔
بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ انکشاف یا دعوی سب کے لیے حیران کن ہے، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، اگر واقعی ایسی کوئی ٹیلیفونک گفتگو ہوئی تھی تو اہم سوال یہ ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل پر گرمی جوشی یا مسرت کا اظہار کیوں کیا؟ کیا ایسا کرنے کا واحد مقصد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کرنا؟ یا وہ واقعی ایرانی کمانڈر کی موت پر اطمینان محسوس کررہے تھے۔
ڈونلڈٹرمپ کا کلپ وائرل ہونے کے بعد تحریک انصاف کے آفیشل اکانٹس خاموش ہیں۔ تحریک انصاف نے فی الحال نہ تردید کی ہے اور نہ ہی کوئی وضاحت جاری کی ہے۔ صحافتی اصولوں کے مطابق تو خاموشی کو خبر کی تصدیق ہی سمجھا جاتا ہے۔
تاہم تحریک انصاف کے حامی چند اکانٹس کی جانب سے ڈونلڈٹرمپ کے اس دعوے پر کہا جا رہا ہے کہ مشہد میں حضرت امام رضا کے مزار سے اپنے دورہ ایران کا آغاز کرنے والے چیئرمین تحریک انصاف، جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر اظہار مسرت کیسے کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی و ضاحت یا تردید نہیں بلکہ مفروضہ قائم کرکے دلیل بنانا کہلائے گا۔ ڈونلڈٹرمپ کے دعوے کی خبر کسی ذرائع کے حوالے سے نہیں ہے۔
بلکہ ان کا ویڈیو کلپ موجود ہے جس میں وہ یہ بات کہہ رہے ہیں۔ انھوں نے جنرل قاسم کے قتل کو اپنے دور حکومت کا ایک بڑا کارنامہ اور امریکا کی بڑی فتح قرار دیا اور ساتھ ہی چیئرمین تحریک انصاف کا حوالہ بھی دے دیا ۔ وہ اپنے ووٹر کو یہ باور کروا رہے تھے کہ ان کی خارجہ پالیسی اس قدر کامیاب تھی کہ ایسا کرنے کے باوجود مسلم ممالک کے سربراہان کے ساتھ اچھے مراسم رہے۔
امریکی ووٹر کے لیے تو یہ پیغام اس لیے اہم تھا کہ آجکل امریکا کی اسرائیل نواز پالیسی کو مسلم ممالک اور امریکا میں مقیم مسلم ووٹر شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے حصول میں کچھ بھی کرسکتے ہیں، جھوٹ بولنا ان کے لیے کوئی پریشانی یا ندامت کا باعث نہیں ہے، وہ بے تکی اور لمبی لمبی چھوڑنے کے ماہر ہیں۔ وہ سوچنے سے پہلے بات کرتے اور بات کرنے کے بعد بھی نہیں سوچتے۔ انھیں امریکی سیاست کا چیئرمین تحریک انصاف کہا جا سکتا ہے۔
اسی طرح چیئرمین تحریک انصاف کو پاکستانی سیاست کا ڈونلڈ ٹرمپ کہا جاتا ہے۔ دونوں کا انداز سیاست ایک ہی ہے۔ دونوں اپنے مخالفین کو گندے ناموں سے پکارنے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ دونوں نے ہی اپنے اپنے ملک میں سیاسی تقسیم گہری کی ہے۔ دونوں ہی اپنے اپنے ملک میں مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
صدارتی الیکشن ہارجانے کے بعد ڈونلڈ ٹر مپ نے کپیٹل ہل پر حملہ کرا کے امریکا میں ریڈ لائن کراس کی ہے۔ جب کہ چیئرمین تحریک انصاف نے نو مئی کو عسکری تنصیبات پر حملہ کرا کے پاکستان کی ریڈ لائن کراس کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی امریکا میں فراڈ اور دیگر مالی بد عنوانیوں کے مقدمات کا سامنا ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف کو بھی توشہ خانہ سمیت دیگر مقدمات کا سامنا ہے۔اس لیے دونوں کے مزاج اور انداز سیاست میں مماثلت قابل دید ہے۔
بہرحال ایسی کسی گفتگو کا فی الحال کوئی آفیشل ریکارڈ سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ وضاحت کی ہے کہ وہ جس ٹیلی فونک گفتگو کا حوالہ دے جو دعوی کررہے ہیں، وہ کس دن ، کس تاریخ اور کس ٹائم پر ہوئی۔
جب کسی ملک کے صدر اور وزیراعظم کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوتا ہے تو اس کا پورا ریکارڈ ہوتا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے جو دعوی کردیا ہے، وہ پاکستان کے لے بڑا اہم ہے،اس بارے میں حقیقت کا سامنے آنا انتہائی ضروری ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پرایران کی حکومت نے انتہائی سخت رد عمل کا اظہار کیا تھا، اس کا بدلہ لینے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ مسلم ممالک نے بھی اس پر شدید رد عمل دیا۔
مسلم ممالک سمیت پاکستان میں ان کی شہادت پر سب نے افسوس کا اظہار کیا تھا۔ ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستانی وزیراعظم کے حوالے سے دعوی کئی مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تو بحث ہو رہی ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف خود کو پاکستان میں امریکا کا سب سے بڑا مخالف ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ انھیں امریکا نے اقتدار سے نکالا ہے۔ سائفر کا شور مچایا جاتا ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین کو امپورٹڈ کہتے ہیں ،دوسری طرف ایسے انکشاف کا سامنے آنا یقینا حیران کن ہے اور یہ پی ٹی آئی کے لیے بھی مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
ویسے چیئرمین تحریک انصاف اور ٹرمپ کے درمیان ایک انڈر اسٹینڈنگ کا تاثر ضرور پیدا ہوا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد جب چیئرمین تحریک انصاف پاکستان واپس آئے تو انھوں نے کہا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ ایک اور ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ٹرمپ نے چیئرمین تحریک انصاف کے بارے میں بات کی ہے۔ وہ پہلے بھی بات کرتے رہے ہیں، البتہ ایسا دعوی پہلی بار سامنے آیا ہے۔ اس لیے مجھے ٹرمپ کی بات میں صداقت لگتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ کے اس انکشاف کا چیئرمین تحریک انصاف کو پاکستان میں سیاسی طور پر کوئی نقصان ہو گا؟ ٹرمپ کے انکشاف کے بعد پی ٹی آئی کی اتحادی مجلس وحدت المسلمین ابھی تک خاموش ہے اور کوئی رد عمل نہیں دیا ہے۔
ان کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ مجھے لگتا ہے ٹرمپ کا یہ انکشاف ایرانی حکومت کے لیے ایک صدمے سے کم نہیں ہوگا۔
انھیں شائد اس کی توقع ہی نہیں ہوگی۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوے پر پی ٹی آئی وضاحت کرے، اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیاسی اور مالی مفادات کے تحفظ کے لیے ایسی بہتان تراشی کی ہے تو انھیں بے نقاب ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ پی ٹی آئی اور چیئرمین پی ٹی آئی کو ڈونلڈ ٹرمپ سے اس الزام کے ثبوت طلب کرنا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس