پاکستان ایئر فورس کے میاں والی بیس پر دہشت گردوں کے حملے کے فوراً بعد تیرہ وادی میں دہشت گردوں کیساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں پاکستان نے ایک لیفٹیننٹ کرنل سمیت چار فوجی جوان کھو دیے۔ پاک فوج نے دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا جو کم از کم گزشتہ ربع صدی سے پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ کچھ دہشت گردوں کو تذویراتی اثاثے سمجھنے کا ملک کو مسلسل خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگرمان بھی لیا جائے کہ دہشت گردوں کے پیچھے غیر ملکی دشمن ہیں، تو یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ جن پاکستانیوں کو اُس نظریے کے تحت دہشت گردی کیلئے بھرتی کیا جاتا ہے، جو انہیں ریاست کو چیلنج کرنیکی راہ دکھاتا ہے کہ 97 فیصد مسلم آبادی کا ملک ہونا کافی نہیں، بلکہ پاکستان کے علاوہ باقی دنیا کو مزید مسلمان بنانے کی ضرورت ہے۔ ملک کو اسلامی نظریاتی ریاست بنانے پر اصرار نے ایسا ماحول قائم کر دیا ہے جو معقول فیصلہ سازی کیلئے ساز گار نہیں رہا۔ تاریخ گواہ ہے کہ تمام مذاہب میں اسکے علما کے باہمی اختلافات رہے ہیں۔ مذہبی نظریات کی بنیاد پر ریاستی امور کا تعین کرنے سے پاکستانی اس سے کہیں زیادہ تقسیم ہو گئے ہیں جتنا مذہب انھیں متحد کر سکتا تھا۔ 1953ء کے احمدی مخالف فسادات پر بنائی گئی رپورٹ میں منیر کمیشن نے خبردار کیا تھا کہ ’’جب علما سے کہا گیا کہ وہ مسلم تاریخ میں اسلامی ریاست کی کوئی مثال بتائیں تو انکی آرا منقسم تھیں۔‘‘ ایک سو سترہ نشستوں میں منیر کمیشن نے 3600 صفحات پر مشتمل تحریر بیانات اور 2700 صفحات پر مشتمل ثبوت کا معائنہ کیا۔ کمیشن نے 339دستاویزات اور ایک بڑی تعداد میں ’’کتابوں، پمفلٹوں، رسالوں اور اخبارات کا مطالعہ کیا۔‘‘ اس نے ’’بڑی تعداد میں خطوط بھی پڑھے جن میں سے چند ایک سو صفحات سے بھی زیادہ ضخیم تھے۔‘‘ بہت سے علما سے انٹرویو لینے کے بعد جسٹس منیر نے نشان دہی کی کہ ’’ان میں سے کوئی سے دو مذہبی عالم ایسی بنیادی تعریف پر متفق نہیں کہ دراصل ایک مسلمان کون ہے۔‘‘ جسٹس منیر نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ ’’اگر ہم خود سے تعریف طے کر لیں، جیسا کہ ہر عالم دین نے کیا ہے اور ان کی تعریفیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو وہ ہمیں متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے نکال دینگے۔ اور اگر ہم کسی ایک بیان کردہ تعریف کو اپنا لیں تو ہم اسکی نظر میں تو مسلمان رہیں گے لیکن باقی تمام کی تعریف کے مطابق کافر قرار پائیں گے۔‘‘
1963 ء میں ایک برطانوی اخبار نویس، آئن سٹیفنز نے پاکستان کے ملاؤں کے زیر اثر جانے کے کسی بھی امکان کو رد کر دیا تھا، چاہے ان میں سے کچھ مولانا مودودی جیسے متحرک اور بااثر کیوں نہ ہوں۔ اس کی رائے میں پاکستان میں علما کی طاقت اسرائیل سے کم ہے۔ اسرائیل وہ مذہبی ریاست ہے جو 1940 ء کی دہائی میں وجود میں آئی تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آنیوالے برسوں میں آئن سٹیفنز کا مفروضہ کس قدر غلط ثابت ہوا۔
پاکستانیوں کیلئے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنے اور یہ تسلیم کرنے کا وقت ہے کہ موجوہ تشریح کردہ ’’نظریہ پاکستان‘‘ مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیتا اور پاکستان کے ایک معمول کی ریاست بننے کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ پاکستان کی تزویراتی اہداف حاصل کرنے کی کوشش اس کی سکت سے مناسبت نہیں رکھتی، گرچہ یہ امریکہ او ر چین کے ساتھ اپنے الائنس کی وجہ سے اس زعم میں مبتلا رہتا ہے۔ اگر پاکستان ایک جدید ریاست کے طور پر کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اسے قوم پرستی کے محدود نظریاتی کوزے سے باہر نکلنا ہوگا۔ پاکستانی لیڈروں کو اپنے عوام کو اس بوجھ سے آزاد کرنا ہوگا کہ وہ مسلسل محاصرے اور خطرے میں ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کو خوف یا عدم تحفظ کے خدشات پالنے کی ضرورت نہیں۔ اور نہ ہی یہ کہ اسلام جو کہ 1400 سال سے پروان چڑھ رہا ہے، خطرے میں ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا عدم تحفظ در اصل ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ اس کی جگہ اب منطقی خود اعتمادی کو لینی چاہیے۔ جہاد کے نام پر ہونیوالی دہشت گردی پاکستان کیلئے خطرہ ہے اور پاکستان کی خاطر اسکا خاتمہ ضروری ہے۔ نظریاتی قوم پرستی سے فعال قوم پرستی کی طرف تبدیلی درکار ہے :’’ہم پاکستانی ہیں کیونکہ ہم پاکستان میں پیدا ہوئے،‘‘ نہ کہ ’’ہم پاکستانی ہیں کیونکہ ہمارے آباؤ اجداد نے اسلامی ریاست بنانے کا عزم کیا تھا۔‘‘ اس ماحول کو تبدیل کرنے میں مدد کریگا جس میں مختلف انتہا پسند اور دہشت گرد پروان چڑھتے ہیں۔ یہ گروپ پاکستان سے بھرتی ہوتے ہیں اور یہیں اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔ ایک بار جب ریاست تکثیری تصور کو ملک کے مستقبل کے طور پر اپنا لیتی ہے جس میں کئی ایک نظریات کارفرما ہوں تو انتہا پسندوں کو بھی پاکستانی سوچ اپنانے میں غنیمت محسوس ہو گی۔ پھر وہ اس خبط سے باہر آجائینگے کہ ’’ہم فلسطین، کشمیر اور اسلام کیلئے لڑ رہے ہیں۔‘‘ اس وقت سکولوں میں پڑھایا جانیوالا اور قومی میڈیا کے ذریعے پھیلایا جانیوالا بیانیہ یہی ہے۔ پاکستان کو قومی سلامتی کے دقیانوسی تصورات پر بھی قابو پانا ہو گا۔ اپنے آپ کو ایک ’جنگجو قوم‘ کے طور پر دیکھنے کے بجائے یہ ایک ’تجارتی قوم‘ بنیں جو معاشی مقاصد کیلئے اپنے مقام سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ پاکستان بھارت، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے درمیان سامان اور خدمات کیلئے آسانی سے ترسیل کا راستہ بن سکتا ہے۔ اس کے ذریعے تیل اور گیس کی پائپ لائنیں چل سکتی ہیں، اس میں شرکت کرنے کے فوائد ہیں۔
بھارت اور افغانستان کو مستقل دشمن یا تزویراتی خطرے کے طور پر دیکھنے کے بجائے اہم تجارتی شراکت داروں کے طور پر دیکھا جائے۔ اعلیٰ خواندگی، عالمی رابطے، زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ اور شہریوں کی خوش حالی، متبادل تصور رکھنے والے پاکستان کے اہداف ہونگے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کو مذہب کے نام پر گمراہ افراد کی وجہ سے جان دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور نہ ہی ایسے گمراہ لوگ بیرونی دشمن کے استعمال کیلئے دستیاب ہوں گے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ