سپریم کورٹ نے اپنی شمع روشن کردی : تحریر محمود شام


آج پورے90دن رہ گئے ہیں۔ 8فروری 2024 ء میں۔

آج وہ90 دن پورے ہوگئے ہیں۔ جن میں 1973ء کے متفقہ منظور شدہ آئین کے مطابق الیکشن ہوجانے چاہئیں تھے۔

10 اگست کو صدر مملکت نے وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ آئین کے مطابق الیکشن بدھ 8نومبر سے پہلے ہو جانے چاہئیں تھے۔ الیکشن کمیشن نے آئینی مدت بغیر الیکشن کرائے گزارنے کی روایت برقرار رکھی۔ اب بھی سپریم کورٹ کے حکم پر 8فروری کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایک گنتی ہوچکی۔ 8فروری انتہائی مقدس دن بن گیا ہے۔ ایک عظیم مملکت ۔ بے شُمار قدرتی وسائل رکھنے والی اور بے حساب انسانی وسائل رکھنے والی ریاست پاکستان اپریل 2022ء سے جن گھاٹیوں اور بھنوروں سے گزری ہے۔ اس میں بالآخر الیکشن کمیشن کے چیئرمین کا ایوان صدر میںصدر سے ملنا۔ پھر ایک تاریخ پر سب اداروں کا متفق ہونا ۔ بے یقینی کو بڑی حد تک دور کررہا ہے۔ رجب المرجب کا مہینہ بہت ہی مقدس ہے۔ اس میں الیکشن کا ہونا یقیناً بابرکت ہے۔ امید ہے سب اداروں کی، ان کے سربراہوں کی نیت درست ہوگی اور سب کی دلی کوشش ہوگی کہ انتخابات آزادانہ و منصفانہ ہوں۔ اور اس میں تمام سیاسی پارٹیوں کو آزادی سے حصّہ لینے کی اجازت ہو۔

اس شدت کے نازک دَور میں ملک کو بحران سے نکالنے کی ذمہ داری اب قومی سیاسی جماعتوں پر آن پڑی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ پیچیدہ، مایوس کن صورت حال بھی سیاسی جماعتوں ہی کی غلط کارکردگی اور نا اہلی کا نتیجہ ہے۔ ان کی آپس کی محاذ آرائی اور ایک دوسرے سے نفرت غیر سیاسی اداروں کی سیاسی امور میں مداخلت کا سبب بنتی ہے۔ آج 9نومبر ہے۔ علامہ محمد اقبال کا یوم ولادت۔ وفاقی حکومت نے بڑا کرم کیا ہے کہ عام تعطیل کا اعلان جاری کیا ہے۔ پاکستان کو علامہ اقبال کا خواب قرار دیا جاتا ہے۔ قائد اعظم کی قیادت میں اس خواب کی تعبیر حاصل کرلی گئی ۔ لیکن اس کے بعد جاگیرداروں، زمینداروں، سرمایہ داروں،سرداروں اور تحریک پاکستان کی مخالف مذہبی سیاسی جماعتوں نے قائد اعظم کے معاشرے کے قیام اور اقبال کے خواب کی تعبیرکے حصول میں مسلسل رکاوٹیں ڈالیں۔

علامہ اقبال کے بے باک صاحبزادے جاوید اقبال نے 1962 میں ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ علامہ کہتے تھے۔

Nations are born in the hearts of poets, they prosper and die in the hands of politicians.

’’قومیں شاعروں کے دلوں میں وجود پاتی ہیں۔ وہ سیاستدانوں کے ہاتھوں خوشحال اور دم توڑتی ہیں۔‘‘

مفکر پاکستان نے جہاں جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کا خواب دیکھا تھا۔ وہاں انہوں نے یہ خواب بھی دیکھا تھا کہ یہ الگ وطن سیاستدانوں کے ہاتھوں میں پھل پھول بھی سکتا ہے اور دم بھی توڑ سکتا ہے۔ 1971میں نہ قائد اعظم کا پاکستان رہا اور نہ ہی علامہ کے خواب والا۔

اپریل 2022 سے اب نومبر 2023تک پاکستان کی تینوں نسلوں ۔65سال سے اوپر والے پاکستانی 50سال سے اوپر والے پاکستانی 18سال سے 49سال تک کے پاکستانیوں کو جن مصائب اور چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے یہ بے یقینی کا دَور 8فروری کے اعلان سے ختم ہوجانا چاہئے۔ اس کیلئے سب سے زیادہ ذمہ داری مسلم لیگ(ن) کی ہے۔ جس کو اسوقت ہر سہولت اور سیاست کیلئے کھلا میدان میسر ہے۔ اس کے سپریم لیڈر بھی اب ماشاء اللہ وطن عزیز میں موجود ہیں۔ بے یقینی ختم کرنے کی پہل اب تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف کو کرنی چاہئے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف بھی تاریخ دیکھ رہی ہے۔ تیسری قیادت عمران خان کی ہے۔

وہ بلاشُبہ اس وقت سب سے زیادہ مقبول ہیں لیکن وہ آزاد نہیں ہیں۔ میاں صاحب اور بلاول کی یہ اخلاقی ،سیاسی اور تاریخی ذمہ داری ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو بھی آئین اور قانون کے مطابق سہولتیں دلوائیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ مقامی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ میاں نواز شریف سے یہ امید رکھتی ہے کہ وہ ملک کو بحران سے نکال سکتے ہیں۔ علاقائی سیاست میں بھی وہ بھارت، چین اور افغانستان کو قابل قبول ہیں۔ لیکن اس کیلئے نہ میاں صاحب کی طرف سے ایسا کوئی روڈ میپ دیا گیا ہے۔ نہ ہی ان طاقتوں نے ابھی دل کھول کر بتایا ہے کہ میاں نواز شریف انہیں کیوں محبوب ہیں اور عمران خان کیوں معتوب ہیں۔ کوشش کی گئی کہ پی پی پی کو سندھ کی بھی باگ ڈور نہ دی جائے۔ لیکن اس کوشش میں کامیابی نہیں ہوسکی۔

اب الیکشن کمیشن کے پاس الیکشن کی تاریخ میں کسی تبدیلی کا جواز نہیں رہا ۔ اور اس وقت پارلیمنٹ بھی موجود نہیں۔ جہاں قوانین اور قرار دادیں منظور کرواکے پنجاب اور کے پی کے کے انتخابات آئینی مدت میں نہیں کروائے گئے۔ سب اداروں نے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔ عدالتیں بھی خاموش رہیں۔ دیگر ادارے بھی۔ ایک آئین کے تحت چلنے والے ملک میں اگر آئین کی شقوں پر عمل نہ کیا جائے تو پورا سسٹم ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ اداروں اور سیاسی جماعتوں کی غیر فعالیت کے نتیجے میں عوام اعصابی تناؤ اورذہنی بیماریوں میں مبتلا رہے ہیں۔ کاروبار بند اور نوجوان بے روزگار ہوگئے ہیں۔ واہگہ سے گوادر تک مایوسی کا عالم 8فروری کی تاریخ مقرر ہونے سے صرف اس صورت میں ختم ہوسکتا ہے کہ قومی سیاسی پارٹیاں انتخابی مہم کا آغاز کریں۔ مجالس عاملہ کے اجلاس بلائے جائیں۔ ضلعی، صوبائی، قومی کنونشن منعقد کیے جائیں۔ انتخابی منشور کی اشاعت اس نازک موڑ پر اور زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ عوام کے سامنے واضح ہو کہ کونسی پارٹی ملک کو سیاسی، سماجی، آئینی اور مالی بحران سے نکالنے کی بصیرت رکھتی ہے اور آئندہ دس پندرہ برس کا روڈ میپ دے رہی ہے۔ ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دے رہی ہے۔ جن کا ماضی صاف ہے جو کرپشن میںملوث نہیں رہے ہیں۔

8فروری کے الیکشن کے بعد عوام جس پارٹی کو بھی مینڈیٹ دیں گے اسے حکمرانی کی ابتدا کیلئےشعبان اور رمضان جیسے مقدس مہینے ملیں گے۔ ان کی برکتیں حاصل کرنے کیلئے اس پارٹی کو صرف اور صرف دیانت اختیار کرنا ہوگی اس حکمران جماعت کے ہاتھوں ہی پاکستان کا سیاسی،سماجی، اقتصادی،عسکری اور سفارتی وقار بحال ہوگا۔

پہلے عوام سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اب واہگہ سے گوادر تک پاکستانی قومی سیاسی جماعتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

یہ جماعتیں پہلے اپنا کھویا ہوا وقار بحال کریں۔ پھر ملک کی مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا کی عزت واپس لائیں اور یہ تاثر پیدا کریں کہ ملک کو منتخب قیادت چلارہی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ