پاکستان کے معاشی مسائل کی وجوہات پر بہت بحث ہوتی رہتی ہے۔ 2018کے عام انتخابات میں ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان کے مسائل کی بنیادی وجہ چند سیاسی خاندانوں کی کرپشن ہے، اگر ان کا احتساب ہو جائے تو ملک کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
لیکن پھر ہم نے دیکھا یہ ساری باتیں ایک سیاسی گروہ اور اس کے سرپرستوں کا ایجنڈا تھا ، ہم نے شریف خاندان کو دیوار میں چنوادیا۔لیکن ملک کے مسائل حل نہیں ہوئے بلکہ بڑھتے ہی گئے۔ نیب کو مضبوط کر کے بھی دیکھ لیا لیکن نہ تو کرپشن کم ہوئی اور نہ ہی سیاسی و معاشی مسائل کم ہوئے۔ بلکہ ایک رائے یہ بن گئی کہ نیب کی وجہ سے ملک کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔
2013کے عام انتخابات میں ہمیں بتا یا گیا کہ ملک میں بجلی ہی نہیں ہے، اس لیے ملک معاشی بحران کا شکار ہے۔ بجلی نہیں ہے تو کارخانے اور مارکیٹیں بند ہیں، دفاتر میں کام نہیں ہورہا، یوں پوری معیشت منجمد ہوگئی ہے لہذا پہلے بجلی بنائیں، پھر معیشت چلے گی ۔
ان دنوںبارہ بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہورہی تھی۔ بجلی ایک گھنٹے آتی دو گھنٹے جاتی تھی۔پھر لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی لیکن ملک کے مسائل ختم نہیں ہوئے۔ بجلی آگئی کارخانے نہیں چلے، بجلی آگئی معیشت نہیں چلی۔
ہم نے ملک کے مسائل کی سیاسی توجیحات بہت دیکھی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق ملک کے مسائل کی توجیحات اور ان کے حل تجویز کرتی ہیں۔ جیسے 2008میں کہا گیا کہ جب تک نظام انصاف آزاد نہیں ہوگا ملک چل نہیں سکتا۔ ایک چیف جسٹس اور چند ججز کی بحالی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔
ہم نے چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججز کو لانگ مارچ کرکے بحال کرالیا۔ لیکن ملک کے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے ہی گئے۔
کبھی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ آمریت ہے، جیسے ہی آمریت ختم ہو گی، ملک کے مسائل حل ہو جائیں گے،ر جب جمہوریت آجائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بوگس جمہوریت ملکی مسائل کی بنیادی وجہ ہے، اس لیے اس جمہوریت سے جان چھڑائیں گے تو ملک کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ملکی مسائل کی توجیحات بدل جاتی ہیں لیکن مسائل اپنی جگہ موجود ہیں بلکہ بڑھتے جا رہے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں پاکستان کے مسائل کی بنیادی وجہ کوئی بیرونی نہیں ہے بلکہ پاکستان کے مسائل کی وجہ پاکستان کے اندر ہی ہے۔ ہمیں پاکستان کے مسائل کا حل بیرون ملک ڈھونڈنے کے بجائے ملک کے اندر ہی ڈھونڈنے چاہیے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان کے مسائل کی وجہ فوجی اسٹبلشمنٹ ہے۔ یہ ملک میں کوئی بھی نظام چلنے ہی نہیں دیتے۔ آمریت بھی بطور نظام نہیں چلاتے اور جمہوریت کو بھی نہیں چلنے دیتے۔ جب کوئی نظام تسلسل سے چل ہی نہ سکے تو اس کے نتائج کیسے آئیں گے۔
کسی نظام کو تو چلنے دیں۔ نہ جمہوریت چلنے دی جاتی ہیں اور نہ ہی آمریت چلنے دی جاتی ہے۔ نتیجتا پاکستان کا انتظامیہ، بلدیاتی اورعدالتی نظام ہی فیل ہو گئے ہیں۔
پاکستان آج جن مسائل کا شکار ہے، اس کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔ یہ اجتماعی وجوہات ہیں۔ میں سمجھتا ہوں چار بڑے ہاتھی پاکستان کے تمام مسائل کی بنیاد ہے۔
یہ چار ہاتھی کون ہیں، ان میں ایک پاکستان کی افسر شاہی ہے۔ دوسرا پاکستان کا کاروباری طبقہ ہے۔ تیسرا اسٹیبلشمنٹ اور چوتھا سیاستدان ہیں۔ ان میں کوئی بھی کم یا زیادہ ذمے دار نہیں ہے، سب اپنی اپنی جگہ مکمل ذمے د ار ہیں، اس لیے کم یا زیادہ بحث فضول ہے۔
اسٹبلشمنٹ پر سب متفق ہی ہوںگے لہذا اس پر زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ افسر شاہی کے کئی نام ہیں مثلا نوکرشاہی،بیوروکریسی اور پبلک سرونٹس۔ افسر شاہی بھی ملک کو چلنے نہیں دے رہی۔ سچ تو ہے کہ آج ہمارے ملک کا نظام حکومت چل نہیں رہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ افسر شاہی ہے۔ یہ نہ خود کام کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو کام کرنے دیتے ہیں۔
فائل پر اعتراض لگوا لیں یا فائل کو پہیے لگا لیں کچھ بھی میرٹ پر نہیں ہو تا۔ انھوں نے ملک کو سرخ فیتے کا ایسا نظام دے دیا ہے کہ پورا ملک اس سرخ فیتے کا شکا ر ہو گیا ہے۔ اب دیکھیں بیرون ملک سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہش مند بھی پاکستان میں کام رک جانے کی شکایت کرتے ہیں۔
حکمران بھی اس افسر شاہی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افسر شاہی کی نالائقی، ہوس پرستی اور بددیانتی نے ملک کو اس حال میں پہنچا دیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بیوروکریسی خود کو ٹھیک کرنے کے لیے تیار بھی نہیں ہے۔
اسی طرح ہمارا کاروباری طبقہ بھی پاکستان کی اس حالت کا ذمے دار ہے۔ اگر افسر شاہی کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو ہمارا کاروباری طبقہ بھی سدھرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ آج جس ملک جس حال میں ہے، اس کے باوجود یہ طبقہ پورا ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ناجائز منافع سے لے کر مارکیٹوں میں تجاوزات تک میں اس طبقے کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے۔سڑکوں پر ٹریفک جام ہوتی رہے، کاروباری طبقے کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
یہ طبقہ ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ اپنا ہر کام سرکار سے کرانا اپنا فرض سمجھتے۔ اگر صرف کاروباری طبقہ ہی بیرون ملک پیسے بھیجنا بند کردے تو ملک خوشحال ہو سکتا ہے۔ لیکن انھوں نے دبئی خرید لیا، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں زمین خرید لیں لیکن پاکستان کے لیے کچھ کرنے کو تیار نہیں۔
پاکستان کے سیاستدان بھی پاکستان کا سفید ہاتھی ہے۔ یہ پاکستان کے کاروباری طبقے کو ٹھیک کر سکتے ہیں نہ افسر شاہی کو اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ کو ٹھیک کر سکے ہیں۔
ان کی نااہلی، نالائقی، لالچ اور سطحی سوچ نے باقی سفید ہاتھیوں کو من مرضی کا خوب موقع دیا ہے۔جب یہ سفید ہاتھی ہمارے چمن کو تہس نہس کرتے ہیں تو سیاستدانوں کا سفید ہاتھی یا تو ساتھ مل جاتا ہے یا بے بس ہوکر تماشا دیکھتا ہے، جب ساتھ مل جاتا ہے تو بربادی میں اپنا حصہ وصول کرتا ہے ورنہ ڈر کر خاموش تماشائی بن جاتا ہے۔
اس لیے یہ بھی ایک ہاتھی ہے اور مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔ سیاستدانوں کا یہ عذر کہ انھیں کام نہیں کرنے دیا جاتا، ناقابل قبول ہے۔
مزے کی بات ہے کہ یہ چاروں سفید ہاتھی بربادی کا کام مل کر کرتے ہیں۔ میں کسی ایک کو ذمے دار نظر نہیں سمجھتا۔ یہ چاروں کہیں نہ کہیں آپس میں ملے ہوتے ہیں۔ تباہی پر ان کا اتفاق ہے۔ لیکن ترقی کے لیے ان کا اختلاف قابل دید نظر آتا ہے۔
جب تک ان چاروں ہاتھیوں کو آئین و قانون اور سسٹم کی زنجیروں میں جکڑا نہیں جاتا، ان منہ زور ہاتھیوں سے ملک کی ترقی کا کام نہیں لیا جا سکتا۔ ہم لکھاری ان سب کو اکٹھے نہیں دیکھتے بلکہ الگ الگ ان کی ذمے داری کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا، پاکستان اب ان چاروں ہاتھیوں کا بوجھ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ان ہاتھیوں کو بھی یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ اب پاکستان ان کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لہذا بہتر یہی ہے چار ہاتھی اکٹھے بیٹھ جائیں اور ملک چلانے کا کوئی طریقہ نکال لیں تاکہ ان کا وجود بھی قائم رہے اور پاکستان بھی چلتا رہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس