کچھ روز پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب قائداعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کمیٹی میں اس کے ممبر کی حیثیت سے شریک ہوئے اور غالبا وہاں طلبا یونینزکی بحالی کا عندیہ دیا یا خواہش کا اظہار کیا۔
میڈیا میں اس کی خبر آنے کے بعد طلبا یونینز کی بحالی پر بحث چھڑ گئی۔ کچھ حلقوں کی جانب سے یونینز کی بحالی کی پرزور حمایت کی جارہی ہے اور کچھ لوگ مخالفت بھی کررہے ہیں، بہرحال کافی عرصے کے بعد اس موضوع پر مباحثہ شروع ہوگیا جو غزہ کی صورتحال کی وجہ سے عارضی طور پر دب گیا ہے۔
طلبا یونینز کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ملکی قیادت کے لیے یہ نرسری کا کردار ادا کرتی ہیں اور جماعتِ اسلامی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیوں کو طلبا سیاست کے ذریعے ہی بہترین قیادت میسر آئی ہے۔
یہ درست ہے کہ طلبا یونینز کے کچھ عہدیداروں نے بہت شہرت حاصل کی، اسی شہرت کو سیڑھی بناکر وہ مختلف پارٹیوں میں داخل ہوئے اور ان کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کے رکن اور وزیر بھی بنے۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ سیاست کی حرکیات کو بہت سوں سے زیادہ بہتر جانتے تھے، مسلسل مشق سے وہ تقریر کا فن بھی سیکھ چکے تھے اور اپنا مافی الضمیر بڑے موثر انداز میں پیش کرسکتے تھے، اس لیے بہت جلد اپنی قیادت کے قریب ہوگئے اور دلکش عہدے حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔
اس لحاظ سے وہ سیاست میں کامیاب کہلاتے ہیں۔ مگر ضروری نہیں کہ سیاسی میدان کے کامیاب افراد بہترین سیاستدان کہلانے کے بھی حقدار قرار پائیں۔ اچھا سیاستدان تو اسی کو کہا جائے گا جس کے دامن پر مالی یا اخلاقی کرپشن کا کوئی داغ نہ ہو، جو کبھی کسی طالع آزما ڈکٹیٹر کا آلہ کار نہ بنا ہو اور جس نے ہمیشہ اعلی اخلاقی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کی ہو۔
طلبا یونینز سے آنے والے مشہور و معروف افراد میں سے کئی کرپشن میں ملوث ہوکر بدنام ہوئے، بہت سے آمروں کے آلہ کار بنے، بہت سوں نے اپنی معیشت تو بہتر کرلی، کرائے کے مکانوں سے اٹھ کر ایکڑوں پر پھیلے بنگلوں اور فارم ہاؤسز کے مالک بن گئے مگر انھوں نے ملک اور قوم کے لیے کیا خدمات سرانجام دیں؟ کیا انھوں نے قانون سازی میں کوئی موثر کردار ادا کیا یا پارلیمنٹ میں بھی صرف جذباتی تقریریں ہی کرتے رہے۔ کیا انھوں نے رزقِ حلال پر قناعت کی اور ترقیاتی فنڈز میں سے کمیشن کو مالِ حرام سمجھ کر اس سے پرہیز کیا؟
قیادت کے لیے انگریزی لفظ C سے شروع ہونے والی تین خوبیوں کا ہونا ضروری ہے، Character, competence, courage اچھا لیڈر وہ ہے جو اعلی کردار کا حامل ہو یعنی دیانتدار اور پاکباز ہو، قابل اور باصلاحیت ہو اور اسے مسائل کا پورا ادراک ہو اور ان کے حل کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ اِن خوبیوں کے علاوہ جرات اور دلیری بھی ایک اچھے لیڈر کی بنیادی خصوصیت ہوتی ہے، ایک کمزور دل اور بزدل شخص کبھی اچھا لیڈر نہیں کہلا سکتا۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ طلبا یونینز کی نرسری سے آنے والے بہت سے افراد بہترین لیڈر کے معیار پر پورے نہ اترسکے، کچھ کے بارے میں مشہور ہے کہ دلیر ہیں مگر ان کے دامن صاف نہیں ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن پر کرپشن کا الزام نہیں مگر قابلیت اور صلاحیت کا فقدان ہے۔
اسلامی جمعیت طلبا کے سابق عہدیدار طلبا یونینز کی بحالی کے سب سے پر جوش حامی ہیں اور اس نرسری کے ذریعے سے ملکی سیاست کو بہترین لیڈر فراہم کرنے کے دعویدار ہیں۔ ان کی کچھ باتیں درست ہیں مگر ان کے تمام دعووں سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ آج کل جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرمشتاق احمد صاحب کی ہر جگہ تعریف وتحسین ہورہی ہے۔ اس لیے کہ قانون سازی میں ان کا کردار انتہائی مفید اور موثر رہا ہے۔
وہ جذباتی انداز کے بجائے مدلل انداز میں بہترین تجاویز پیش کرتے ہیں۔ اس لیے انھیں دوسری پارٹیوں کے ارکان بھی ایک بہترین پارلیمینٹرین تسلیم کرتے ہیں، میرے خیال میں وہ کبھی کسی اسٹوڈنٹس یونین کے عہدیدار نہیں رہے ۔
جہاں تک ملکی سیاست کے لیے نرسری کا کردار ادا کرنے کا تعلق ہے تو تعلیمی اداروں کے مقاصد اور اہداف میں اچھا انسان بنانے کے علاوہ اچھا انجینئر، ڈاکٹر، معلم اور سائنسدان تیار کرنا تو شامل ہے، سیاستدان تیار کرنا ہرگز نہیں ہے۔ یونینز کے اچھے عہدیدار طلبا کی فیسوں میں کمی اور دیگر فلاحی کاموں میں مثبت کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں مگر وہ اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کو خوش کرنے کے لیے ایسے کام بھی کرتے تھے جو میرٹ اور انصاف کے منافی ہوتے تھے، اس کے لیے بعض اوقات وہ اساتذہ کے ساتھ rude ہوجاتے اور بدتمیزی پر اتر آتے تھے۔
لہذا اس ٹریننگ سے ان کے اندر میرٹ کو پامال کرنے اور بڑوں اور بزرگوں کے ساتھ بدکلامی اور غنڈہ گردی کے رجحانات پرورش پاتے تھے۔ اسٹوڈنٹس یونینز کے تحت سب سے مفید اور کارآمد سرگرمیاں ہفتہ تقریبات کے دوران ہونے والے مباحثے، مشاعرے، تقریری مقابلے اور کوئز مقابلے ہوا کرتے تھے، میرے خیال میں اگر تعلیمی اداروں میں مختلف سوسائٹیاں بنادی جائیں اور ان کے عہدیداروں کا انتخاب میرٹ پر کیا جائے تو ان کے زیرِ اہتمام بھی تعلیمی اور تقریری سرگرمیوں کا بخوبی اہتمام ہوسکتا ہے۔
سیاسی قیادت کے لیے سب سے بہتر اور موثر نرسری بلدیاتی اداروں سے تیار ہوتی ہے، عوامی رابطے اور نچلی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے کی جتنی ٹریننگ بلدیاتی اداروں کے منتخب ارکان کی ہوتی ہے اتنی اور کہیں نہیں ہوسکتی۔
اخبارات میں قائداعظم یونیورسٹی میں سنڈیکیٹ کی کارروائی پڑھ کر میں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ طلبا یونینز کے انتخابات سے جامعات میں پرتشدد اور خونی لڑائیوں کو فروغ ملا تھا، اس لیے ان کی بندش بحالی سے بہتر ہے۔ اس پر اسلامی جمعیت کے ایک نوجوان نے کمنٹس لکھے کہ آپ تو پنجاب یونیورسٹی لا کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر رہے ہیں، آپ کیوں ان کی بحالی کی مخالفت کرتے ہیں۔ میرے عزیز! میں اس لیے مخالفت کرتا ہوں کہ میں نے خود خونی لڑائیاں دیکھی ہیںاور اپنی آنکھوں سے بوڑھے والدین کو جوان بیٹوں کی لاشیں وصول کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
تعلیمی اداروں خصوصا یونیورسٹیوں کے انتخابات بڑےviolent اور پرتشدد ہوتے تھے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی آٹومیٹک اسلحہ اور کلاشنکوف اس ملک میں نہیں آئی تھی۔ میرے خیال میں اسٹوڈنٹس یونینز کے الیکشنز سے تعلیمی اداروں میں تشدد اور بیرونی مداخلت بڑھ جائے گی اور تعلیم کا معیار بالکل گر جائے گا۔
اسٹوڈنٹس یونینزکے عہدیدار وں کی تعلیمی اداروں میں مثبت خدمات بھی ہوتی تھیں مگر اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ لاہور میں کچھ اسٹوڈنٹ لیڈر ہوسٹلوں پر برسوں سے قابض رہتے تھے، وہ قریبی ہوٹلوں سے مفت کھانا کھاتے اور پلاٹوں پر قبضے کرتے تھے، وہ کم نمبروں والے طلبا کو میرٹ کے برعکس دھونس کے ذریعے داخلہ دلاتے تھے۔
جو عہدیدار بہت منہ زورہوجاتے وہ انتظامیہ کو hostage بنالیتے اور طلبہ کے داخلوں سے لے کر اساتذہ کی تقرری تک سینئر پروفیسروں کو ہدایت دینا شروع کردیتے تھے۔ اگر ان کی خواہشات کو من وعن تسلیم نہ کیا جاتا تو وہ اساتذہ کے ساتھ بدزبانی اور بدتمیزی کرتے تھے۔ ایسی تربیت حاصل کرکے پارلیمنٹ میں پہنچنے والے کیا قانون کی حکمرانی قائم کریں گے؟
راقم جب ملک کے سب سے بڑے اور سب سے قدیم لا کالج (یونیورسٹی لا کالج لاہور) میں اسٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا تو پنجاب یونیورسٹی یونین کے عہدیداروں کی طرف سے کہا گیا کہ آپ کے پرنسپل ہمارے کام نہیں کرتے، انھیں ٹھیک کرنا ہوگا۔ مزید ہدایات دی گئیں کہ جب ان کے دفتر جائیں تو ان سے صدر یونین کے طور پر باآواز بلند بات کیا کریں، مگر میں نے دیکھا کہ پرنسپل صاحب ہماری سفارش ہی نہیں، بڑے سے بڑے حکمران کی سفارش بھی ٹھکرا دیتے ہیں۔
جب میں نے پرنسپل صاحب کو وزیراعلی اور اس وقت کے جابرگورنر پنجاب کے سفارشی خط پھاڑ کر ڈسٹ بِن میں پھینکتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو پرنسپل شیخ امتیاز علی صاحب کے سامنے میری آواز کیا بلند ہوتی، ان کے سامنے میری آنکھیں بھی ہمیشہ کے لیے جھک گئیں۔ اس کے بعد وہ میرے لیے کالج کے پرنسپل نہ رہے source of inspiration بن گئے۔ ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنے اور اصولوں پر قائم رہنے کے بارے میں والد صاحب کے بعد میں نے سب سے زیادہ اپنے پرنسپل شیخ امتیاز علی صاحب سے سیکھا ہے۔
میں نے اپنی کتابوں اور تحریروں میں اگر کسی شخصیت کو Living legend کہا ہے تو صرف اپنے استادِ محترم شیخ امتیاز علی صاحب کو کہا ہے۔
کل وفاقی دارالحکومت کی ایک بڑی یونیورسٹی کے ایک سینیئر عہدیدار سے اس موضوع پر بات ہوئی تو انھوں نے طلبا یونینز کے حق میں ایسی بات کی جس میں خاصا وزن محسوس ہوا، کہنے لگے اس وقت ہماری یونیورسٹی میں زبان، نسل علاقے اور قبیلے کی بنیاد پر طلبا کی پچاس سے زائد تنظیمیں بن چکی ہیں، یونینز بحال ہونے کے بعد انتخابات ہوئے تو ان میں سے 45 سے زائد تحلیل ہو جائیں گی اور صرف دو یا تین رہ جائیں گی جن سے ڈیل کرنا آسان ہوگا۔
اسٹوڈنٹس یونینز کی بحالی کے حق میں دیے جانے والے دلائل بھی وزن سے خالی نہیں، مگر ان کی بحالی کے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ کو نہیں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو کرنا چاہیے اور پھر یہ فیصلہ کسی ایک یونیورسٹی کے لیے نہیں، ملک کی تمام یونیورسٹیوں پر لاگو ہونا چاہیے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس