لاہور (صباح نیوز) نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان و ڈائریکٹر جنرل نافع پاکستان پروفیسر محمدابراہیم خان نے کہا ہے کہ نفاذ اردو کے حوالے سے لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ قابل تحسین ہے،ہم اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔عدالتی فیصلے توماضی میں بھی ہوئے،لیکن عمل درآمدنہ ہوسکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نفاذاردو کے فیصلے پرعمل درآمد کو یقینی بنایا جائے،
اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ 25فروری1948 ، 1962 اور 1973 کے آئین کے تحت دستور ساز اسمبلی نے اردو کو پاکستان کی قومی ، سرکاری ، دفتری زبان اورذریعہ تعلیم قرار دیا تھا۔ آئین کی شق نمبر 251 میں کہا گیا:پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی اور اس کو سرکاری زبان 15 سال کے عرصے میں بنا دیا جائے گا۔1973 کے آئین کے تحت 4 اکتوبر 1979 مقتدرہ قومی زبان کا قیام عمل میں لایا گیا،
اس ادارے نے 1979 سے 1988 تک نظام مملکت کو اردو میں منتقل کرنے کا کام مکمل کرلیا تھا اورامید تھی کہ اگست 1988 میں اردو کو ملک کی دفتری زبان کا درجہ مل جائے گا ، لیکن بدقسمتی سے حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے اس وقت نفاذ اردو کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔بعدازاں2002 میں نفاذ اردو کے سلسلے میں عدالت میں دائر کردہ رٹ کا معاملہ بھی عدالتوں میں 12سال تک لٹکا رہا۔بلآخر عدالتی دباو پر نوازشریف حکومت نے عدالت کو جولائی 2015 میں نفاذ اردو کے لیے قلیل المدتی اور طویل المدتی اقدمات کی ایک تحریری یقین دہانی کرائی۔
اسی طرح 8 ستمبر 2015 کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو زبان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکم جاری کیا کہ 90 دن کے اندر اندر آئین کے آرٹیکل 251 پر عمل درآمد کرکے سرکاری سطح پر قومی زبان اردو کو نافذ کیا جائے۔اس وقت کی حکومت(مسلم لیگ ن) نے وعدے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں کیااور بعد میں آنے والی حکومت(پی ٹی آئی) نے بھی اس معاملے کو سرد خانے میں ہی رکھا۔
موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت بھی اس جرم میں سابقہ حکومتوں کی راہ پر عمل پیرا ہے۔اب13فروری 2023 کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد رضا قریشی نے حکومت پنجاب کو 30 دنوں کے اندر نفاذِ اردو کے اقدامات کرنے اور عدالت عالیہ میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
پروفیسرمحمدابراہیم خان نے کہا کہ نفاذ اردو کے حوالے سے لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ قابل تحسین ہے،ہم اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔عدالتی فیصلے توماضی میں بھی ہوئے،لیکن عمل درآمدنہ ہوسکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نفاذاردو کے فیصلے پرعمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
انھوں نے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنی زبان کے نفاذ کے لیے اپنے ہی اداروں سے درخواست گزار ہیں۔ ترقی یافتہ قومیں اپنی زبان پر فخر کرتی ہیں اور اپنی تعلیمی ورثے کواپنی زبان میں اگلی نسل تک منتقل کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک قومی ایشو،اور آئینی مسئلہ ہے۔ہمیں پوری ایمانداری کے ساتھ اس معاملے پر رائے عامہ کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ ملک عزیز میں ہماری نئی نسل میں مغربی ثقافت کے جو اثرات درآئے ہیں،ان کی ایک بڑی وجہ غیرملکی زبان (انگریزی)بھی ہے،جو ہمارے نظریے اورہماری آزادی کے لیے خطرناک ہے۔
نظریات کا تحفظ، دین کا استحکام اور وطن کی بقا اردو زبان کی ترویج اور اس کی بقا ہی سے وابستہ ہے۔اس لیے ناگزیر ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اردو کے نفاذ کے لیے عملی اقدمات کئے جائیں۔انھوں نے عدلیہ سے بھی مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ اور سارے ہائی کورٹ اپنی ساری کارروائی اور فیصلے اردو میں فورا شروع کردیں ۔۔