نوشہرہ ( صباح نیوز)جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور خارجہ امور کے ڈائریکٹر آصف لقمان قاضی نے کہا ہے کہ ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے ، تمام سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی و نظریاتی اختلافات بھلا کر ملکی سا لمیت اور بقا کیلئے یکسو ہو کر 8برس قبل تمام سیاسی جماعتوں کے تائید کردہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے آواز اٹھائیں حکومت اداروں اور ادارے حکومت پر ذمہ داریاں عائد کر رہی ہیں لیکن ہمیں بتایا جائے کہ ہم اپنا خون کس کے ہاتھ پے تلاش کریں ، خیبر پختونخواہ پولیس کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں، وزیر اعظم کا پشاور دورہ اور عیادتیں صرف فوٹو سیشن کے سوا کچھ نہیں تھا اگر وزیر اعظم کا دورہ پشاور اور عیادتیں فوٹو سیشن نہیں تھا تو پشاور پولیس لائن مسجد دھماکے کے بعد وفاقی حکومت کے عملی اقدامات کیا ہیں ، قوم کو بتایا جائے.
ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوشہرہ پریس کلب میں میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کیا اس موقعہ پر امیر جماعت اسلامی ضلع نوشہرہ حاجی عنایت الرحمان ،ڈاکٹر عطا اللہ اعوان ، انجینئر امیر عالم خان بھی موجود تھے، آصف لقمان قاضی نے مزید کہا کہ متعدد بار اداروں کی جانب سے دعویٰ کیاگیاکہ دہشت گردی کا نیٹ ورک ختم کردیاگیاہے۔ لیکن بلند بانگ دعوؤں کے باوجود خیبر پختونخوا کے عوام آج بھی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے عوام میں یہ احساس ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیاجارہاہے۔ گزشتہ بیس برس میں دہشت گردی کے واقعات میں 80ہزار پاکستانی شہریوں کو شہید کیاگیاہے جن میں سے 60ہزار شہداء کاتعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ خیبر پختونخوا کے جوانوں نے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران سب سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں۔ آج اگر پولیس کے جوان احتجاج کے لیے نکلے ہیں تو ان کاحق ہے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں۔
ہم احتجاج کرنے والے پولیس کے جوانوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور اس کے مقابل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بے حسی کی مذمت کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا پولیس کے جوانوں کو مکمل اختیارات، وسائل اور سماجی تحفظ فراہم کیاجائے۔ ہمارے پھولوں جیسے جوان شہید ہو رہے ہیں لیکن ان کے ساتھ اس ملک کا نظام انصاف نہیں کررہا۔ خیبر پختونخوا کے عوام سوال کرتے ہیں کہ شہید ہونے والے کی جان سے اس کا ڈومیسائل زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ اس کا تعلق کس صوبے سے ہے۔
اس ملک کے تمام شہری یکساں حق رکھتے ہیں کہ حکومت ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ شہریوں کے سامنے شفاف انداز میں تمام معلومات رکھی جائیں کہ حکومت اور اداروں کے پاس شہریوں کے تحفظ کے لیے کیامنصوبہ عمل ہے؟ ٹانڈہ ڈیم میں51بچے ڈوب کر جاں بحق ہوگئے ہیں اور تین دن تک ان کی لاشیں نکالنے کے لیے ادارے حرکت میں نہیں آئے۔ کیا کسی دوسرے صوبے میں اتنی بڑی تعدادمیں جانی نقصان ہوتا تو تب بھی ادارے ایسے ہی خاموش رہتے؟ ہم تمام صوبوں کے درمیان ہم آہنگی اور یکجہتی چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ اگر خیبر پختونخوا کے عوام کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا تو ہم نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وقت پارٹی بازی اور سکورنگ پوائنٹ کا نہیں ہے۔ ہمیں متحد ہو کر چلنا چاہتے ہیں۔ امن وامان کاقیام حکومت اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اگر ادارے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے غفلت برتتے ہیں تو متعلقہ افسران کااحتساب ہونا چاہیے۔ قوم اپنا پیٹ کاٹ کر ملکی سلامتی کے لیے بجٹ فراہم کرتی ہے۔ اس کے بدلے میں قوم کو کیا ملتاہے؟ کیا اس ملک کے وسائل صرف طاقتور طبقات کے لیے ہی مختص ہیں؟ ہزاروں پولیس اہلکار صرف وی آئی پی ڈیوٹی پر مشغول رہتے ہیں جبکہ ان کو تنخواہ ملک و قوم کی حفاظت کے لیے دی جاتی ہے۔
اس سلسلے میں قومی میڈیا کو بھی اپنا کردار اداکرناچاہیے۔ پشاور میں قیامت کا سماں ہے لیکن ٹی وی چینلزکوفواد چوہدری اور شیخ رشید کے مقدمات کی تفصیلات بیان کرنے سے فرصت نہیں ملتی۔ یہاں عوام کے بچوں کے اجسام ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں اور وہاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی محاذ آرائی جاری ہے۔ جس کی وجہ سے ملک سیاسی، سماجی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام اس حکومتی بے حسی سے تنگ آ چکے ہیں۔ ہمیں بتایا جائے کہ حکومت اور حکومتی اداروں کے پاس عوام کی سلامتی کے لیے کیا منصوبہ عمل ہے؟