اسلام آباد (صباح نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کیلئے دائر درخواست کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ مبینہ ویڈیو سے متاثرہ لوگ یہ معاملہ عدالت میں نہیں اٹھارہے تو کوئی دوسرا فریق یہ معاملہ نہیں اٹھا سکتاعدالت نے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس عدالت میں اپیلیں بھی زیرسماعت ہیں اگردرخواست سماعت کیلئے منظور کرلی جائے تو اس کا ان اپیلوں پر کیا اثر پڑے گا،
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے جارحانہ اندازمیں درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے ماضی کے واقعات کی بھی تحقیقات کامطالبہ کردیا۔ اٹارنی جنرل نے معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوانے کی تجویز دے دی۔ تاہم عدالت نے درخواست گزارسے کہا ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر درخواست کے قابل سماعت ہونے کی ٹھوس وجہ عدالت کو بتائیں ۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کیلئے دائر درخواست پر سماعت کا آغازکیا تودرخواست گزار صدرسندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن صلاح الدین ایڈووکیٹ اور اٹارنی جنرل درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر معاونت کیلئے پیش ہوئے چیف جسٹس نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں ہائیکورٹ کس کو تحقیقات کیلئے ہدایت دے؟ درخواست گزار نے کہا کہ عدالت حکومت کو کمیشن بنانے کی ہدایت دے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے موقف اپنایا کہ درخواست آرٹیکل 199 کے تحت دائر کی گئی ہے، یوں لگتا ہے یہ پراکسی درخواست ہے جو انہوں نے دائر کی، ایسا تاثر نہیں ہونا چاہئیے کہ درخواست گزار کسی اور کا کیس لڑ رہے ہیں، کبھی کبھی ہمیں پتہ نہیں ہوتا ہمیں کوئی اور استعمال کر رہا ہوتاہے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ عدلیہ کو ہراساں کرنے اور دباؤ ڈالنے کا سیزن ہے،کبھی کوئی آڈیو، کبھی کوئی بنایا گیا ڈاکومنٹ ریلیز کیا جاتا ہے،
اٹارنی جنرل نے کہاکہ پتہ لگنا چاہئیے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو کیوں ہٹایا گیا؟رقم سے بھرے ہوئے سوٹ کیس کیسے جاتے رہے؟ جو بھی زندہ لوگ ہیں ان سب کا احتساب کر لیتے ہیں، صرف چن کر ایک وزیراعظم کیلئے پراکسی بن کر کیوں لوگ عدالت آرہے ہیں؟ درخواست گزار نے 2017 کے واقعات کا ذکر کیا ہے،ایک اور وزیراعظم تھا جسے مبہم عدالتی حکم پر پھانسی بھی دی گئی،بینظیر کی حکومت واپس بحال نہیں کی جاتی لیکن ایک اوروزیراعظم کی حکومت بحال کر دی جاتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں بریف کیس بھر کر بھی دیئے جاتے رہے،درخواست گزار نے ماضی میں جانا ہے تو درخواست میں ترمیم کریں، کیوں صرف 2017 میں جائیں، ذوالفقار علی بھٹو تک جاتے ہیں، جلا وطن کرنے کی سہولت ایک وزیراعطم کو دی جاتی ہے تو بھٹو کو کیوں نہیں؟ایک وزیراعلی نے جج کو فون کیا، فیصلہ کالعدم ہو گیا لیکن فون کرنے کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی، پتہ چلنا چاہیئے کہ جسٹس سجاد علی شاہ کو کیوں ہٹایا گیا؟ایک سزا کیخلاف اپیل اس ہائیکورٹ میں چل رہی ہے، اس ایک اپیل کیلیے پوری عدلیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی،
اس موقع پر درخواست گزار صلاح الدین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اگر حکومت ملک قیوم کو فون اور ذوالفقار بھٹوکیس مین کمیشن بنانا چاہتی ہے تو بنادے ان پر کوئی پابندی تو نہیں ہے۔ جن کے کیسز ہیں وہ عدالت نہیں آئے ،میرا موقف یہ ہے عدالتوں کو متنازعہ کیا جارہا ہے،عدلیہ تحقیقات کروا کر یہ سلسلہ روک سکتی ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آج کل ایڈوانس ٹیکنالوجی ہے کوئی بھی آڈیو یا ویڈیو بن سکتی ہے، کوئی بھی آڈیو بنا کر کہہ دے اس پر تحقیقات کریں، دیکھنا ہوگا کہ اس آڈیو پر تحقیقات شروع کردیں تو زیر التوا اپیلوں پر کیا اثر پڑے گا؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آج کل ویڈیوز کا سیزن چل رہا ہے اور میں یہی کہہ رہا ہوں ساری چیزیں گھوم پھر کر ایک اپیل تک جاتی ہیں،یہ صرف ایک کیس کیلئے پراکسی وار لڑی جارہی ہے،عام شہری کے کیس میں کوئی ویڈیونہیں آتی ،ہزاروں لوگوں کو نوکری سے نکال دیا گیا انکی کوئی ویڈیو نہیں آئی، یہ پراکسی جنگ ہے، ایک شخص کیلئے بار بار ویڈیوز آ رہی ہیں،ہر کوئی آج کہہ رہا ہے کہ میرے پاس دو ویڈیوز ہیں چار ویڈیوز ہیں، سینکڑوں لوگوں کی زمینوں پر قبضہ ہو جاتا ہے اسکی کوئی ویڈیو نہیں آتی،
چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ وہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کو ببھیج دیں اس طرح کے معاملات پربحث کیلئے پارلیمنٹ بہترین فورم ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ بارز کا عدلیہ کی آزادی کیلئے بڑی جدوجہد ہے، آج درخواست گزارصلاح الدین کو سنتے ہیں، اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ آج یوم حساب ہے، وکلا ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججز کے کپڑے پھاڑ دیتے ہیں پھر ایک مذمت جاری کر دی جاتی ہے، بار نے ہی سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر چیف جسٹس کے خلاف نعرے لگائے،
اس دوران درخواست گزار صلاح الدین کا کہناتھا کہ اٹارنی جنرل ہر کیس کا ذمہ دار بار ایسوسی ایشن کو ٹھہرا رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان کے عدلیہ اور ججز کے خلاف بیانات نکال کر دیکھ لیں،یہ توجہ ہٹانے کیلئے کہا جاتاہے کہ 70 سال کا احتساب کریں یا کسی کا نہ کریں،اس دوران اٹارنی جنرل نے کہاکہ میں خود ترمیمی درخواست دائر کرنے کو تیار ہوں ماضی سے احتساب کیا جائے،
اس پر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل حکومت سے کہہ کر ماضی کا جو احتساب کرنا ہے کر لیں، اس کیس سے ماضی کے کیسز جوڑنے کی کیوں ضرورت پڑ رہی ہے، بیان حلفی کا کیس اسی عدالت میں زیر التوا ہے ،آڈیو کا معاملہ بھی قابل سماعت ہو سکتا ہے، اس پرچیف جسٹس نے کہاکہ بیان حلفی کا معاملہ الگ ہے وہ بیان حلفی دینے والے خود عدالت آئے ہیں،آپ جس آڈیو کی بات کر رہے ہیں اس پر آپ کو بھی یقین نہیں کہ ٹھیک ہے،اس معاملے پر کمیشن تو اس وقت بنے گا جب کوئی ٹھوس وجہ موجود ہوگی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے اپنے خلاف سوشل میڈیا پراپیگنڈہ کی کاپیاں دکھا تے ہوئے کہا کہ میری تصویر پھیلائی جاتی ہے کہ وہ ن لیگ کے صدر کیساتھ باہر پھر رہے ہیں،کیا اب اس پر تحقیقات کروانے لگیں گے،
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ ثاقب نثار کی آڈیو کیا کسی مستند ذریعے سے آئی؟ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں وہ آڈیو مستند ہے؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ جن لوگوں کے کیسز ہیں وہ اگر کوئی آڈیو نہیں عدالت لاتے تو ہم کیوں کریں؟ کیاکوئی آڈیو کی اونر شپ لینے والا ہے؟ بتائیں آپ کے اس درخواست کوقابل سماعت بنانے کیلئے کیاگراونڈ ہے ؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ درخواست ترمیم کر کے لائیں میں سارا معاملہ پارلیمنٹ لیکر جاؤں گا،
درخواست میں ماضی کے معاملات پر بھی تحقیقات کی استدعا شامل کریں ،صلاح الدین نے کہا کہ پھر احتساب تو اٹارنی جنرل اور وزیراعظم سے شروع ہونا چاہیئے ، اٹارنی جنرل وکلا کی بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کے چیئر مین ہیں اور وزیراعظم نے بھی اعلی عدلیہ کے ججز کے بارے میں بہت کچھ کہا تھا،چیف جسٹس نے درخواست گزار سے کہاکہ اٹارنی جنرل نے آج آپ کو بڑی آفر کی ہے،
اٹارنی جنرل نے کہاکہ میرا بنیادی اعتراض یہی ہے کہ یہ پراکسی پٹیشن ہے، اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ انہوں نے نکالے گئے سرکاری ملازمین کے مقدمہ میں سپریم کورٹ میں پیش ہونا ہے اس لئے کیس کی سماعت ملتوی کی جائے عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعامنظور کرتے ہوئے سماعت 24 دسمبر تک ملتوی کر دی جس کی وجہ سے درخواست کے قابل سماعت ہونے کے قانونی نقطے پر دلائل مکمل نہ ہو سکے۔