اسلام آباد (صباح نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع مارگلہ کی پہاڑیوں اور نیشنل پار ک میں تجاوزات کے خاتمے کے مقدمہ میں وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم اور چیئر مین وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ وہ آکر وضاحت کریں کہ اب تک تجاوزات کیوں ختم نہیں کی گئیں اور کیوں قانون کا اطلاق نہیں کیا جاتا ۔
عدالت نے قراردیا ہے کہ نیشنل پارک میں تجاوزات سوالیہ نشان ہیں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں یہ تجاوزات قانون کی خلاف ورزی کی بڑی مثال ہیں ، عدالت نے قراردیا ہے کہ نیشنل پارک کی 8630ایکڑاراضی پرتجاوزات بادی النظر میں آئین کی خلاف ورزی ہیں اور اسلام آباد کے ماسٹر پلان کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں کیس کی سماعت ہوئی تواسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل پارک کے تحفظ کے اقدامات نہ اٹھانے پر سی ڈی اے اور دیگر اداروں پر برہمی کا اظہار کیا عدالت کا کہنا تھاکہ مارگلہ نیشنل پارک میں کیوں ابھی تک تجاوز ات والی زمین واگزار نہیں کروائی گئی نیشنل پارک میں تجاوزات سے مفاد عامہ کے اہم سوالات اٹھتے ہیں۔
اسی دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے رپورٹ جمع کراتے ہوئے بتایا کہ معاون خصوصی ملک امین اسلم، چیئرمین سی ڈی آر ، چیئرمین وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی کمیٹی تھی جس نے نیشنل پارک کا سروے کیا ہے مارگلہ ہلز کی بہت سی گیٹگریز ہیں ،چیف جسٹس نے کہاکہ کوئی کیٹیگری نہیں ایک ہی نیشنل پارک ہے اس ایریا کی اونرشپ وفاقی حکومت کے پاس ہے،
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ مارگلہ نیشنل پارک کا31 ہزار ایکٹر کا ایریا ہے ،چیف جسٹس نے کہاکہ ایکوائر لینڈ کو الاٹ کرنے سے متعلق سی ڈی اے حتمی اتھارٹی ہے،،عدالت کا کہنا تھا کہ الاٹ کی گئی زمین پر کس کس نے تجاوزات قائم کی ہیں معاون خصوصی نے کس بنیاد پر سروے کیا ہے ؟چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ میں سوال اٹھایا کہ کیا نیول گالف کورس ہے غیر قانونی ہے ؟ رپورٹ میں لکھا ہے ،کیا گالف کورس قبضہ کرکے پر بنایا گیا ہے ،اگر گالف کورس تجاوزات میں ہے تو کون اس کا ذمہ دارہے ؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جس نے بنایا وہی اس کا ذمہ دار ہے ، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تو کوئی نہیں کر سکتا کہ وہ گالف کورس بنانا شروع کردے، کیا سی ڈی اے سو رہا تھا ؟ کیا اس شہر میں کوئی قانون نہیں ؟چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا نیول ہیڈ کوارٹرز غیر قانونی ہے ؟ کیا سی ڈی اے نے اس کی منظوری دی ؟اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایاکہ اگر تھوڑا سا وقت دے دیں میں چیک کر لیتا ہوں،سی ڈی اے حکام کا کہنا تھا کہ نیول گالف کورس الاٹ کی گئی زمین پر نہیں بنایا گیا سیکشن 21 کا نوٹس بھی دیا ہے ،
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا سی ڈی اے حکام جھگیوں والوں کو بھی سیکشن 21 کا نوٹس دیتے ہیں؟ غریب کی جھگیاں بغیر نوٹس گرا دیتے ہیں نیول گالف کورس جو نیشنل پارک کی زمین پر غیر قانونی بنا ایکشن کیوں نہیں لیا؟ چیف جسٹس نے سی ڈی اے حکام کی سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیاکہ نیول گالف کورس کب بنا تھا اس وقت چیئرمین سی ڈی اے کون تھا؟ ،سی ڈی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ 2012 میں باؤنڈری وال لگائی گئی تھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے سیکورٹی تھریٹ تھے،
نیشنل پارک سے 157 تجاوات ہم نے ختم کرائی ہیں لیکن یہ اب ڈیفنس آرگنائزیشںن ہے نوٹس بھی دے چکے ہیں ،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ عدالت بند کردیں کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ آٹھ ہزار ایکٹر کی زمین پنجاب حکومت نے 1910 میں ان کو دی تھی اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے آرڈینس کے بعد کیا اسلام آباد میں کوئی کنٹونمنٹ ایریارہ گیا ؟
آپ نیشنل پارک کی ملکیت تبدیل نہیں کر سکتے ، ماسٹر پلان میں کہاں لکھا ہے یہ اونرشپ تبدیل ہو جائے گی ،اس دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈی جی ماحولیات فرزانہ الطاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ کیا آپ اک ادارہ ڈیڈہوچکا ہے جس کو ماحولیات سے کوئی سروکار نہیں ہے آپ کے پاس بہت اختیارات ہیں استعمال کیوں نہیں کرتیں،؟ وزارت ماحولیات کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس سٹاف نہیں ہوتا وہ سی ڈٰ اے سے مدد لیتے ہیں ۔ عدالت نے قراردیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور سی ڈی اے حکام عدالت کو غیر قانونی تجاوزات کے خاتمے سے متعلق مطمئن نہیں کرسکے۔
عدالت نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم اور چیئر مین وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ وہ آکر وضاحت کریں کہ اب تک تجاوزات کیوں ختم نہیں کی گئیں اور کیوں قانون کا اطلاق نہیں کیا جاتا ۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ نیشنل پارک میں تجاوزات سوالیہ نشان ہیں پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں یہ تجاوزات قانون کی خلاف ورزی کی بڑی مثال ہیں ، عدالت نے قراردیا ہے کہ نیشنل پارک کی 8630ایکڑاراضی پرتجاوزات بادی النظر میں آئین کی خلاف ورزی ہیں اور اسلام آباد کے ماسٹر پلان کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت گیارہ جنوری تک ملتوی کردی