مدینہ منورہ واقعے کے درج مقدمات کی تفصیل اسلام آباد ہائی کورٹ طلب


اسلام آباد(صباح نیوز) اسلام آباد ہائی کورٹ نے مدینہ منورہ واقعے پراسد قیصر سمیت دیگرپی ٹی آئی رہنمائوں کے خلاف کیسز سے درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے مقدمات کی تفصیل طلب کر لیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ علی وزیر کیلئے کوئی نہیں بولتا ، ان کے لیے بھی آواز اٹھانی چاہیے،ان کا حلقہ بغیر نمائندگی کے ہے ایسا تو نہیں ہونا چاہیے ، نئے رولز کے مطابق کسی بھی پارلیمنٹرین کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا جب تک اسپیکر کی منظوری نہیں ہو گی ، قومی اسمبلی نے ارکان کی گرفتاری سے متعلق نئے رولز اچھے بنائے ہیں، نئے رولز کی روح سے کیا علی وزیر اب ہر سیشن میں آ سکتے ہیں ؟۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسد قیصر سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنمائوں کے خلاف کیسز سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ اسپیکر کی جانب سے کون آیا ہے؟

سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے وکیل فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے بتایا کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق جو ممبر پارلیمنٹ بھی گرفتار ہو اسے اجلاس میں شرکت کی اجازت ہو گی، اسپیکر کی اجازت کے بغیر کسی رکن کو گرفتار نہیں کیا جا سکے گا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تو بہت اچھے رولز بنائے ہیں، آپ کی درخواست پر تو رولز میں بھی ترمیم ہو گئی ہے، رولز میں ترمیم کے بعد پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران اب کوئی حلقہ نمائندگی کے بغیر نہیں رہے گا۔

فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن آ جائے کہ ان رولز پر عمل درآمد کا پہرہ بھی دینا ہے، اس کورٹ نے آئین کی سر بلندی کے لیے جو کام کیا اس پر ہم مشکور ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صرف اس کورٹ نے نہیں، سب عدالتیں ایسا ہی کرتی ہیں، آئین اپنی جگہ ہے جس کا احترام کرنا چاہیے۔

فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ججز نے تو آئین کی پاسداری کا حلف لیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسد قیصر صاحب جب اسپیکر تھے تو ایک درخواست آئی تھی، ہم نے یہی کہا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی معاملہ زیرِ غور لا کر خود فیصلہ کریں گے، پروڈکشن آرڈر جاری کرنا اب اسپیکر قومی اسمبلی کی صوابدید نہیں، عدالت توقع کرتی ہے کہ رولز میں ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا، وفاقی حکومت یہ چیز کیسے روک سکتی ہے کہ سیاسی بنیادوں پر مقدمات درج نہ ہوں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پنجاب اور کے پی میں کوئی ایف آئی آر ہو تو وہ ہم سے تو نہیں پوچھیں گے، یہ اگر پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بات کریں تو بہت اچھی بات ہے۔ ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو آئندہ سماعت پر مقدمات کی تفصیل جمع کرانے کی یقین دہانی کرائی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزارتِ داخلہ کو کیا ایشو ہے؟ وہ ملک بھر میں درج مقدمات کی تفصیل جمع کیوں نہیں کرا رہی؟ ان کے استعفے منظور نہیں ہوئے، استعفوں کی منظوری تک وہ ممبرِ پارلیمنٹ ہیں۔وکیل فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک اوپن ایف آئی آر درج ہوئی جس میں پی ٹی آئی قیادت لکھ کر ایف آئی آر میں سب کو شامل کر لیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی بنیادوں پر ساری جگہوں پر کیسے مقدمات درج کرائے جاتے ہیں ، پارلیمنٹ اور وفاقی حکومت کردار ادا کرے اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے ، ہر حکومت یہی کرتی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نئے رولز کے مطابق کسی بھی پارلیمنٹرین کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا جب تک اسپیکر کی منظوری نہیں ہو گی ، آپ کا معاملہ تو حل ہوگیا تو علی وزیر کا بھی حل کردیں، علی وزیر کے لیے نا یہ بولتے ہیں نا کوئی اور بولتا ہے، ان کا حلقہ بغیر نمائندگی کے ہے ایسا تو نہیں ہونا چاہیے ، نئے رولز کی روح سے کیا علی وزیر اب ہر سیشن میں آ سکتے ہیں ؟۔پی ٹی آئی وکیل فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ بالکل وہ سیشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علی وزیر کا کیس اس دائرہ اختیار میں نہیں لیکن یہ بتائیں تو سہی علی وزیر پر کتنے مقدمے ہیں ؟ ان کے لیے بھی آواز اٹھانی چاہیے۔وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ جو آواز اٹھائے وہ خود اٹھایا جاتا ہے ۔عدالت نے دو ہفتوں میں ملک بھر کے تھانوں میں پٹیشنرز کے خلاف درج مقدمات کی تفصیل طلب کرتے ہوئے کہا کہ حلقے کے عوام کی نمائندگی کے لیے اب کسی پارلیمنٹرین کو اسمبلی اجلاس میں شرکت سے نہیں روکا جاسکتا چاہے وہ گرفتار ہی کیوں نا ہو ۔