ملکی سیاسی و پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار حکومت اور اپوزیشن کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر کیخلاف شدید احتجاج


اسلام آباد(محمد اکرم عابد)ملکی سیاسی و پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار حکومت اور اپوزیشن کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر کیخلاف شدید احتجاج،سابق وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کے موقع پر اسمبلی توڑنے پر صدر سے جواب مانگ لیا گیا، حکمران اتحاد کے قائدین نے  مشترکہ اجلاس کاغیر اعلانیہ بائیکاٹ کردیا،ارکان کی اکثریت صدر کا خطاب سنے بغیر  ایوان سے چلی گئی، پختون رہنما علی وزیر خان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے پر بعض ارکان نے اسپیکر ڈائس پر دھرنا دیدیا، سینیٹر مشتاق احمد نے پلے کارڈ اٹھا لیا،پی ٹی آئی کے ارکان سینیٹ نے بھی اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔

 صدرمملکت  ڈاکٹر عارف علوی مشترکہ اجلاس سے خطاب کیلئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے ہمراہ ایوان میں آئے۔ اجلاس 22منٹ کی تاخیر سے  پانچ بج کر 22منٹ پر شروع ہوا۔ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے  صدر کو خطاب کی دعوت دی۔وزیراعظم شہباز شریف،پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری، سابق صدر  آصف علی زرداری، متحدہ مجلس عمل کے پارلیمانی رہنما مولانا اسعد محمود سمیت حکومتی اتحاد کے سرکردہ رہنما موجود نہیں تھے۔ ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، جی ڈی اے، جماعت اسلامی کے رہنما موجود تھے ۔

صدر نے خطاب شروع کیا تو سینیٹر مشتاق احمد نے علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر شدید احتجاج شروع کردیا اور کہاکہ علی وزیر کو رہا کرو۔ دہشت گرد باہر ہیں اور ارکان پارلیمنٹ  جیلوں میں ہیں۔ بعض ارکان صدر کے سامنے آگئے اور احتجاج شروع کردیا ۔ اس دوران اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض بھی اپنی نشست سے کھڑے ہوئے صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ کوئی اخلاقی جواز ہوتا ہے اسی اسمبلی کو صدر آپ نے توڑا اور اب یہاں کیا لینے آگئے کیوں خطاب کررہے ہو واپس جائو۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہاکہ صدر آپ نے وزیراعظم سے حلف بھی نہیں لیا ، آئین کی خلاف ورزی کی، اسمبلی توڑ کوئی شرم حیا کرنی چاہیے۔

اس دوران ڈائس  کے سامنے جمع ارکان نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے جبکہ جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالاکبر چترالی  صدر کی ڈائس کے سامنے آئے اورکہاکہ اس اسمبلی کو آپ نے نااہل سمجھا اور اس کو توڑ دیا اب اس نا اہل اسمبلی سے کیوں خطاب کررہے ہو۔ صدر کے خطاب کے دوران  انتہائی بدنظمی رہی۔ارکان کی اکثریت ایوان سے چلی گئی صرف سابقہ حکومت کے اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی، ایم کیو ایم کے رہنما مقبول صدیقی اور پی ٹی آئی کے چند منحرف ارکان ایوان میں موجود تھے۔ صدر نے نصف خطاب کرلیا تو  ایوان میں صرف 16ارکان رہ گئے تھے۔

صدر نے  آخر میں موجود ارکان کا مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔صدر نے  خطاب مکمل کرتے ہوئے  کہاکہ جتنے یہاں موجود ہیں شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس  کے ساتھ وہ مسکرا دئیے۔ تقریباً ایک گھنٹہ ان کا خطاب جاری رہا۔ انہوں نے پانچ بج کر33منٹ پر خطاب کیا جوکہ 6بج کر 22 منٹ پر مکمل ہوا۔ پاکستان کی سیاسی و پارلیمانی تاریخ کا پہلا موقع ہے جب حکومت اپوزیشن  دونوں اطراف سے صدر مملکت کیخلاف  احتجاج کیا گیا۔ جبکہ آزاد کشمیر کے صدر ،وزیراعظم صوبوں کے گورنرز، وزرائے اعلیٰ بھی موجود نہیں تھے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے  ارکان سینیٹ نے بھی اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔