سری نگر:بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے مزید47 سرکاری ملازمین کی برطرفی کا عمل شروع کر دیا ہے ۔اس سے قبل دو درجن سے زیادہ کشمیری سرکاری ملازمین کو بھارتی سلامتی کے مفاد میں برطرف کیا گیا ہے ۔
بھارتی اخبار ایکسلسیر کی رپورٹ کے مطابق ان میں19 سرکاری افسران بھی شامل ہیں۔ بھارتی خفیہ اداروں نے ۔ ان ملازمین کو برطرفی کے لیے شارٹ لسٹ کر دیا ہے ۔
یاد رہے اس سال جن ملازمین کو ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے انہیں اپنا دفاع کرنے یا اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا ہے۔ملازمین کی برطرفی کے لیے بھارتی آئین کی دفعہ 311 کی ذیلی شق 2 (سی) کا سہارا لیا گیا ہے جس کے تحت بھارت کے صدر یا ریاست کے گورنر تحقیقات کے بغیر کسی بھی سرکاری ملازم کو ملک کی سلامتی کے مفاد میں ملازمت سے فارغ کر سکتے ہیں۔پانچ اگست 2019 کو جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی تھی اس سے قبل بھارتی آئین کی دفعہ 311 کا کشمیر پر اطلاق نہیں ہوتا تھا۔
کے پی آئی کے مطابق ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے متذکرہ دفعہ کے تحت کشمیر میں بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں سینکڑوں ملازموں کو برطرف کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے۔
یاد رہے بھارتی آئین کی دفعہ311 کے تحت برطرف کیے جانے والے ملازمین بارے کوئی تحقیقات نہیں ہوتی۔یہ شق حکومت کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ بغیر تفتیش کے ملازمین کو برطرف کر دے ۔
مقبوضہ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر اگر سمجھیں کے بھارتی سلامتی کے لیے برطرفی ضروری ہے تو کسی کو بھی طربرف کیا جاسکتا ہے ،حالیہ مہینوں میں برطرفی کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ 2 مئی 2021کو سرکار نے3سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کردیا تھا جن میں کرالہ پورہ کپوارہ سے تعلق رکھنے والے استادادریس جان،پلوامہ میں تعینات نائب تحصیلدار نذیر احمد وانی اور گورنمنٹ کالج ادھمپور کے شعبہ جغرافیہ کے اسسٹنٹ پروفسر ڈاکٹر عبدالباری نائک شامل تھے۔10جولائی کو بھی حکومت نے اسی جرم میں11ملازمین کو برطرف کیا تھا۔
ان میں حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کے2بیٹے سید احمد شکیل اور شاہد یوسف کے علاوہ کانسٹیبل عبدالرشید شگن، محکمہ صحت کے ملازم ناز محمد الائی، محکمہ بجلی کے انسپکٹر شاہین احمد لون بھی شامل تھے۔