اک اور خواب’حقیقی آزادی‘ : تحریر مظہر عباس


کچھ ’خواب‘ ہمارے بزرگوں نے دیکھے تھے، ہماری نسل نے آنکھ کھولی تو اندازہ ہوا ’خواب اور حقیقت‘ میں کتنا فرق ہے۔ ویسے تو خواب خود ایک حقیقت ہے مگر ضروری نہیں اس کی تعبیر بھی ویسی ہی نکلے جو آپ نے سوچی ہو۔ آج بھی 75سال بعد یہ نعرہ ہی بلند ہوتاہے کہ ’’ہم بنائیں گے اقبال اور جناح کا پاکستان،‘‘ اب وہ ہوگا کیسا؟ اختلاف اسی پر رہا ورنہ تو جناح نے 11اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بنیادی نکات تو بتا ہی دیئے تھے۔ اس سے اختلاف رکھنے والوں نے نہ تو اس ملک میں آئین کی حکمرانی قائم کرنے دی نہ قانون کی بالادستی اور نہ ہی آزاد میڈیا کا تصور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سارے ’خواب‘ جو ان نسلوں نے مذہبی، سیاسی اور معاشی آزادی کے دیکھے تھے، وہ ’خواب‘ ہی رہے۔

ابھی کل ہی تو ہم نے 6 ستمبر 1965 کی جنگ کی یاد ’یوم دفاع‘ پاکستان کے طور پر منائی ہے۔ آج بھی اس زمانے کے میڈم نور جہاں، مہدی حسن یا استاد امانت علی کے ملی نغمے سنیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی کیونکہ اس وقت بھی کچھ خواب ابھی بکھرے نہیں تھے۔ پھر 65 اور 1971 کے بیچ میں ایسا کیا ہوا کہ اس ملک کی اکثریت نے ہم سے الگ ہو کر الگ وطن بنا لیا اور بنگالیوں کو ایک نیا خواب دکھایا گیا۔ بنگال کی آزادی کا۔ حقیقت تو یہ ہے وہ الگ نہیں ہونا چاہتے تھے بلکہ ہم انہیں الگ کرنا چاہتے تھے۔ وہ جناح کی طرح ووٹ کی طاقت پر یقین رکھتے تھے۔ جب بھی الیکشن ہوئے چاہے 1956 میں صوبائی اسمبلی کے جس میں جگتو فرنٹ نے دوتہائی اکثریت حاصل کی یا 1970 کے، جس میں عوامی لیگ نے دوتہائی اکثریت لی، انہوں نے تو صدارتی الیکشن میں بھی فاطمہ جناح کو ووٹ دیا۔ بات نہ مانی گئی تو وہ نئے خواب لے کر علیحدہ ہوگئے۔

ویسے تو انگریزوں کے خلاف 1857کی جنگِ آزادی بھی ایک خواب تھی جو سب نے متحد ہو کر لڑی پھر تضادات سامنے آئے تو برسوں بعد ایک آزاد ملک کا خواب دیکھا بات حقوق سے تقسیم تک پہنچ گئی مگر پاکستان بنا تو ووٹ کی قوت سے۔ لاکھوں افراد اپنا گھر بار، زمینیں چھوڑ کر اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنے چلے آئے، نہ جانے کتنے گھرانے لٹ گئے تعداد لاکھوں میں ہے۔ ’خواب‘ تھا ایک فلاحی ریاست کا جہاں مذہبی، سیاسی اور معاشی آزادی ہو، تعلیم ہو، صحت کی بہتر سہولتیں ہوں اور کچھ نہیں تو پینے کا صاف پانی ہو مگر ہوا کیا، دو فی صد مراعات یافتہ طبقہ ایک طرف اور 98فیصد دوسری طرف۔ یقین نہ آئے تو موجودہ سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھ لیں۔ہماری نسل نے ان ناانصافیوں کے خلاف لڑنے کا خواب دیکھا، آئین، قانون کی حکمرانی اور آزاد میڈیا کے لئے جدوجہد کی تو بس ’غدار‘ کہہ کر کبھی روسی ایجنٹ تو کبھی بھارتی ایجنٹ کہہ کر پابندِ سلاسل کر دیا اور اس سوچ پر ہی پابندی لگا دی۔ آج بھی یہ نکتہ بحث طلب ہے کہ ہم نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد انگریزوں کے تسلط سے نکل کر امریکہ کے تسلط میں جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ لیاقت علی خان کے دورۂ امریکہ کے بعد اور پہلے مارشل لا کے ساتھ ہی ہم ان کے اتحادی بن گئے۔ لہٰذا جب ہمارے آج کے ’قائدِ انقلاب‘ ایوب دور کی مثالیں دیتے تھکتے نہیں ہیں تو وہ ان حقیقتوں کو بھی سامنے رکھیں۔ ایوب دور کا خاتمہ ہوا تو انہوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے ’دستور‘ کو ختم کر کے ملک کو ایک اور آمر جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیا اور ایک بار پھر ’خواب‘ بکھرنے لگے۔ کچھ امید اس وقت بندھی کہ شاید اس بار تعبیر اچھی ہو جب 1970کے الیکشن کا اعلان ہوا۔ عوامی لیگ پہلے نمبر پر اور پی پی پی دوسرے نمبر پر آئی مگر ایک بار پھر بنگالیوں کے ساتھ وہی ہوا جو 50کی دہائی میں جگتو فرنٹ کے ساتھ ہوا۔ اس صورتحال کے ذمہ دار جنرل یحییٰ بھی تھے اور بھٹو بھی۔ پھر ایک نیا خواب دکھایا گیا روٹی، کپڑا اور مکان کا مگر وہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ اس کے باوجود بھی لاکھوں لوگوں کو بیرون ملک نوکری کی سہولتوں کیلئے پاسپورٹ کی قیمت آدھی کر دی گئی۔ خاصی حد تک خارجہ پالیسی بھی غیر جانبدار رہی اور ملک کو متفقہ آئین کی صورت میں ایک سمت بھی ملی مگر ذوالفقار علی بھٹو نے خود ہی بنیادی انسانی حقوق معطل کر کے اس خواب کا شیرازہ بکھیر دیا۔

پھر 11سال بدترین آمریت رہی اور بھٹو کو ایک عدالتی قتل کے ذریعے پھانسی دے کر نفرتوں کو مزید ہوا دی گئی۔ جنرل ضیاء کی آمریت کا خاتمہ ہوا تو ایک اور امید لوگوں نے ایک ’خواب‘ سے باندھ لی۔ ابھی جمہوریت کا سفر شروع ہی ہوا تھا کہ محلاتی سازشوں اور سیاست دانوں کی نااہلی نے ان امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا۔ نواز شریف اور بےنظیر بھٹو کی حکومتیں اچھی مثالیں قائم نہ کر سکیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان حکومتوں کا خاتمہ عوام کی قوت سے نہیں سازشوں سے ہوا۔ اس کے بعد 9سال کیلئے ایک اور فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے اور ان دونوں کو سیاست سے باہر کر کے ان جماعتوں کو تقسیم کر دیا۔ اسی دوران اپنے زمانے کے کرکٹ ہیرو عمران خان عملی سیاست میں آگئے اور پاکستان تحریک انصاف بنالی۔

آج کی نوجوان نسل کا یہی خواب ہے۔ یہ بظاہر ایک ردِعمل ہے دو جماعتوں کی ناکامی اور نااہلی کا جس سے تیسری جماعت تحریک انصاف وجود میں آئی اور 2013کے بعد سے کامیاب نظر آرہی ہے۔ ’تبدیلی‘ کے نعرے کے بعد اب نیا نعرہ ’حقیقی آزادی‘ کا بلند کیا جا رہا ہے، خان صاحب بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح یہی کہہ رہے ہیں کہ مجھے نکالنے والے بھی وہی ہیں۔ مگر شاید وہ اب ایسی ریڈ لائن کراس کر رہے ہیں جو غالباً ایک مختلف دور میں بھٹو نے عبور کی تھی۔ پچھلے پانچ ماہ سے وہ مقبولیت کے عروج پر ہیں مگر کیا محض عوامی طاقت ہی کافی ہوتی ہے بس ایسا خواب نہ دیکھیں جس کی تعبیر بھیانک ہو۔ ہم اب خوابوں کی دنیا سے باہر نکل کر دیکھیں، قوم سیلاب میں ڈوبی ہوئی ہے کیسی آزادی اور کیسی حقیقی آزادی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ