اسلام آباد(صباح نیوز) مقبوضہ جموں وکشمیر میں سال2022 کے پہلے چھے ماہ کے دوران 72 بھارتی فوجی آپریشنز میں 191 افراد ماے گئے ، محاصرے اور تلاشی کی120 کارروائیوں میں 116 رہائشی مکانات تباہ کیے گئے ۔ اس دوران 122 حریت پسند شہید ہوئے ، 45 بھارتی قابض فوجی ہلاک اور 24 عام شہری شہید ہوگئے۔
لیگل فورم فار کشمیر کی مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر رپورٹ میں جنوری سے جون 2022 تک کے حالات کا مشاہدہ کیا گیا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ تین سالوں میں 1237 شہری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔بھارتی مسلح افواج نے آزادی پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن میں اب تک 116 مکانات کو نقصان پہنچایا۔گنجان فوجی زون میں 15000 مسلح افواج کی اضافی تعیناتی دیکھی گئی ۔مقبوضہ کشمیر میں مقامی مسلح تنظیم ٹی آر ایف کے ذریعہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہوئے ۔۔یو اے پی اے ایکٹ کے تحت سری نگر میں پانچ رہائشی مکانات پولیس نے ضبط کیے ۔
جموں و کشمیر پولیس کی پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ مکان کے مالکان جان بوجھ کر آزادی پسندوں کو پناہ دیتے ہیں۔ ایک مکان مالک نے کہا کہ ان کی جائیدادیں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ضبط کی گئی ہیں۔ اس دوران تحریک آزادی کشمیر سے وابستگی کی بنیاد پر سرکاری ملازمین کی برطرفی کا عمل بھی جاری رہا۔زیادہ تر معاملات میں جن افراد کی ملازمتیں ختم کی گئی تھیں ان کا تعلق خاندان سے تھا۔۔5 اگست 2019 کے بعد، کم از کم 33 ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتظامیہ اور پولیس نے صحافیوں کے خلاف بھی کریک ڈان شروع کر دیا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو پولیس کارروائی ، تشدد ، گرفتاریوں اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے ۔ 2019 کے بعد، 35 سے زائد صحافیوں کو حراست میں رکھا گیابھارتی حکومت نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (UAPA) کا غلط استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔2019، کے بعد پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سینکڑوں افراد کو قید رکھا گیا ۔
بھارتی وزیر داخلہ کے مطابق یو اے پی اے کے تحت 750 کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا۔ . پولیس اعداد و شمار کے مطابق 2300 کشمیریوں کے خلاف UAPA کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (JKCSS) کے چیرمین خرم پرویز کو بھارت کے خلاف”مجرمانہ سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیرمین یاسین ملک کو حق خود ارادیت کی وکالت کرنے پر عمر قید کی سزا دی گئی ۔ اس دوران بھارت میں کشمیری کشمیری طلبا، مزدوروں کے خلاف تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں نئی حدبندی بھی کی ہے تاکہ کشمیر کا اکثریتی کردار ختم کیا جائے ۔
حدبندی کمیشن کی سربراہی سابق جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی نے جموں و کشمیر تنظیم نو قانون کے مطابق نئی حد بندی کا اعلان 5 مئی کو کیا، جس میں ہندو اکثریتی جموں کے لیے 43 سیٹیں جبکہ مسلم اکثریتی وادی کے لیے 47 اسمبلی سیٹیں مختص کی گئیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں انٹرنٹ کی بندش کا مسلہ بھی ہے یکم جنوری سے جون تک انٹرنیٹ کی بندش کے 94 واقعات دیکھے ہیں۔