مظفرآباد(صباح نیوز) آزاد جموں و کشمیر کے نئے مالی سال سال 2022-23 کا ایک کھرب 63 ارب 70 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا، بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کیلئے 15فیصد اضافہ کیا گیا ہے بجٹ میں 1 کھرب 35 ارب 20 کروڑ روپے غیر ترقیاتی اخراجات جبکہ 28 ارب 50 کروڑ روپے ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ہیں، ترقیاتی بجٹ میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 2 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
آزادجموں وکشمیرقانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں بحث و منظوری کے لیے پیش کر دیا۔قانون ساز اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر چوہدری ریاض گجر کی زیر صدارت منعقد ہوا،تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول کے بعد وزیر حکومت دیوان چغتائی نے چھٹی کے روز اجلاس جاری رکھنے کے لیے قواعد انضابط کار کی دفعہ 227کے تحت قاعدہ معطل کرنے کی تحریک پیش کی جو کثرت رائے سے منظور ہوئی۔اجلاس میں پینل آف دی چیئرمین کا اعلان کیا گیا جس میں دیوان غلام محی الدین ،رفیق نیئر اور میاں عبدالوحید شامل ہیں۔اجلاس میں چار اراکین اسمبلی یاسر سلطان،صبیحہ صدیق،عامر غفار لون اور سردار یعقوب خان کی چھٹی کی درخواستیں بھی منظور کرلی گئیں۔
سپیکر نے افغانستان میں زلزلے میں شہید ہونے والوں ،آصف زرداری کی والدہ،چوہدری محمد یوسف،ناز ایڈووکیٹ سمیت دیگر مرحومین کی مغفرت کے لیے حافظ حامد رضا سے دعا کی درخواست کی جس کے بعد وزیر خزانہ عبدالماجد خان نے بجٹ پیش کیا تاہم اپوزیشن ممبران نے اسمبلی اجلاس کا مکمل بائیکاٹ کیا اور ایوان میں نہیں آئے۔وزیر خزانہ عبدالماجد خان نے بجٹ تقریر شروع کی ۔انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 1کھرب 35ارب 20کروڑ روپے غیر ترقیاتی اخراجات جبکہ 28ارب 50کروڑ روپے ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص کرنے کی تجویزہے۔ ترقیاتی بجٹ میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں2ارب اضافہ کیا گیا ہے۔
بجٹ میں 15فیصد عدم تفاوت الائونس( Disparity Reduction Allowance) تجویز کیا گیا ہے جبکہ نظرثانی شدہ تنخواہ سکیل میں اضافہ اور پنشنرز کیلئے 15فیصد اضافہ کی بھی تجویز ہے ۔ اسی طرح ترقیاتی بجٹ میں صحت عامہ کے لیے 1ارب80کروڑ ،تعلیم کیلئے 2ارب 17کروڑ،مواصلات کے لیے 12ارب، فزیکل پلاننگ وہائوسنگ کیلئے 3ارب 30کروڑ مختص کرنے کی تجویز ہے۔ وزیر خزانہ عبدالماجد خان نے مالی سال 2022-23کا بجٹ آزادجموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے بتا یا کہ آئندہ مالی سال میں اخراجات کا کل تخمینہ1کھرب 35ارب 20کروڑ لگایا گیا ہے جس میں جنرل ایڈمنسٹریشن کے لیے5ارب80کروڑ 33لاکھ ،بورڈ آف ریونیو 1ارب 18کروڑ 54لاکھ ، سٹیمپس 4کروڑ 8لاکھ ،لینڈ ریکارڈ اینڈ سٹیلمنٹ4کروڑ 10لاکھ ،ریلیف و بحالیات 1ارب14کروڑ 91لاکھ روپے، پنشن 26ارب ، تعلقات عامہ23کروڑ 17لاکھ ، عدلیہ 2ارب 12کروڑ 28لاکھ،(ہوم )داخلہ 7ارب25کروڑ8لاکھ،جیل خانہ جات 25کروڑ 1لاکھ ، شہری دفاع30کروڑ38لاکھ ، آرمڈ سروسز بورڈ8کروڑ 50لاکھ ،
کمیونیکیشن اینڈ ورکس 4ارب 57کروڑ 87لاکھ ، تعلیم 3ارب 23کروڑ ، صحت عامہ 11ارب 87کروڑ34لاکھ ، سپورٹس یوتھ کلچر اینڈ ٹرانسپورٹ13کروڑ 90لاکھ ، مذہبی امور21کروڑ 90لاکھ ، سماجی بہبود و ترقی نسواں61کروڑ 76لاکھ ، زراعت 85کروڑ 75لاکھ ، امور حیوانات78کروڑ 56لاکھ، خوراک30کروڑ 52لاکھ، ریاستی تجارت3ارب70کروڑ 62لاکھ ، جنگلات1ارب43کروڑ29لاکھ ، کوآپریٹو2کروڑ 81لاکھ ،برقیات9ارب 42کروڑ 86لاکھ ، لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی70کروڑ 80لاکھ ، انڈسٹریز ، لیبرمعدنی وسائل 24کروڑ 77لاکھ ، پرنٹنگ پریس11کروڑ 87لاکھ ، ابریشم 11کروڑ 44لاکھ ، سیاحت و آثار قدیمہ13کروڑ 37لاکھ ، متفرق 21ارب 14کروڑ 19لاکھ
، Capital Expenditure 2ارب شامل ہیں۔ آئندہ مالی سال 2022-23کیلئے آمدن کا تخمینہ اس طرح سے لگایا گیا ہے ٹیکس ریونیو 36ارب 50کروڑ ، لا اینڈ آرڈر 13کروڑ ، لینڈ ریکارڈ اینڈ سیٹلمنٹ 14کروڑ40لاکھ ، سٹمپس42کروڑ ،اے جے کے ٹرانسپورٹ اٹھارٹی 6کروڑ50لاکھ، برقیات20ارب 50کروڑ ، متفرق88کروڑ 60لاکھ ، انڈسٹریز 40کروڑ ، داخلہ (پولیس ) 21کروڑ ، جیل خانہ جات 8لاکھ ، مواصلات76کروڑ50لاکھ، تعلیم 26کروڑ ، صحت عامہ 15کروڑ ، مذہبی امور 65کروڑ ، سوشل ویلفیئر 2لاکھ ، خوراک 40کروڑ ، زراعت 1کروڑ ، جنگلی حیات فشریز 72کروڑ ، امور حیوانات 40 کروڑ،جنگلات 80کروڑ ،لیبر 4کروڑ ،سرکاری پرنٹنگ پریس 10کروڑ، آرمڈ سروسز بورڈ 3کروڑ 40لاکھ ، گرانٹس 74ارب 32کروڑ ، واٹر یوزج چارجز70کروڑ ، منرلز 20کروڑ ،سیاحت 10کروڑ ،
لون اینڈ ایڈوانسز 70کروڑ ، ایڈجسمنٹ آف اوور ڈرافٹ 2ارب 15کروڑ ترقیاتی بجٹ جن شعبوں کے لیے مختص کرنے کی تجویز ہے ان میں درج ذیل شامل ہیں ۔زراعت لائیو سٹاک 50کروڑ شہری دفاع 10کروڑ ، ڈویلپمنٹ اتھارٹی 27کروڑ ، تعلیم 2ارب 17کروڑ ، ماحولیات 10کروڑ ، بیرونی امداد سے چلنے والے منصوبے صفر ، فارسٹری واٹر شیڈ 40کروڑ ، فشریز وائلڈ لائف 5کروڑ ، صحت عامہ 1ارب 80کروڑ، انڈسٹریز منرلز 55کروڑ ، ٹرانسپورٹ 2کروڑ ، انفارمیشن اینڈ میڈیا ڈویلپمنٹ 14کروڑ ، انفارمیشن ٹیکنالوجی38کروڑ ، لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی 2ارب 80کروڑ ، فزیکل پلاننگ اینڈ ہائوسنگ 3ارب 33کروڑ ، توانائی و آبی وسائل 2ارب 25 کروڑ، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ 30کروڑ ، لینڈ ریونیو بحالیات 30کروڑ ، سماجی بہبود و ترقی نسواں20کروڑ ، سپورٹس یوتھ اینڈ کلچر 27کروڑ ، سیاحت 60کروڑ ، کمیونیکیشن اینڈ ورکس 12ارب روپے اور کل ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 28ارب 50کروڑ روپے تجویز کیا گیا ہے جبکہ اس کے علاوہ 50کروڑ روپے بیرونی امداد کی مد میں تجویز کیے گئے ہیں ۔
وزیر خزانہ عبد الماجد خان نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کیلئے 15فیصد اضافہ کی بھی تجویز ہے،،افغانستان زلزلہ متاثرین کیلئے وزرا اور گزیٹیڈ آفیسرز کی ایک دن کی تنخواہ دینے کا اعلان بھی کیا گیا۔اجلاس میں حریت رہنما یاسین ملک کی گرفتاری اور غیر منصفانہ سزا کے خلاف قرارداد بھی منظورکی گئی۔اجلا س میں بھارتی وزیر دفاع کی آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکی کی شدید مذمت کی گئی ہے۔اپنی بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ آزاد جموںوکشمیر عبدالماجد خان نے کہا کہ آج کا تاریخ سازدن میرے لئے اعزاز سے کم نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے سال2022-23 کا بجٹ ایوان میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہونے کے بعد عمران خان، چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور وزیر اعظم آزاد کشمیرجناب تنویر الیاس کے اعتماد کا مظہر ہے، جس کے لئے میں اپنے رب کا شکر بجا لاتا ہوں۔موجودہ حکومت نے مشکل مالی حالات میں دستیاب وسائل میں بہترین بجٹ پیش تیار کیا ہے۔ صحت عامہ کے شعبہ کے لیے اضافی فنڈزمہیا کیے ہیں ۔بجلی و واٹر سپلائی کیلئے بھی خطیر رقم تجویز کی گئی ہے ۔ خواتین کیلئے قرضوں کی سکیمیں شروع کی گئیں ہیں ۔احتجاجاً10ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کر رہا ہوں ۔
وزیر خزانہ عبدالماجد خان نے کہا کہ حکومت آزادکشمیر کی بنیادی ترجیح مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ جموںوکشمیر کی ہندوستان سے آزادی کے لئے تمام وسائل وقف کرنا ہے۔ تحریک آزادی کشمیر کی پبلسٹی اور پروجیکشن کے لئے قائم ادارہ جموںوکشمیر لبریشن سیل کی موجودہ عالمی تناظر اور ضروریات کے مطابق ری آرگنائزیشن کی۔ان تمام معاشی بحرانوں/بندشوں کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آزاد کشمیر میں رحمت اللعالمین/ خاتم النبیین اتھارٹی کا قیام عمل میں لانے جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مظفرآباد میں Skilled یونیورسٹی کے قیام کے لئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں فزیبلٹی کے لئے رقم بھی مختص کی جا رہی ہے۔ آزاد کشمیر میں سیاحت کے فروغ کے لئے پہلی مرتبہ Digital Maping متعارف کروائی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کو کامیاب اور موثر بنانے کے لیے آزادکشمیر کے محکمہ پولیس میںCounter Terrorism Department کا قیام عمل میں لایا جس کے لیے مطلوبہ آسامیاں مہیا کرنے کے علاوہ اس شعبہ کی دیگر ضروریات کے لیے خطیر رقم مہیا کی گئی اس کے علاوہ تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے دو سب ڈویثرن(سماہنی و عباس پور) میں ایڈیشنل سیشن ججز کی عدالتیں قائم کیںاس انتظام سے ان سب ڈویثرنزکے عوام کو سہولت ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران صحت کے شعبہ میں ترجیحی بنیادوں پرتقریباً500ملین روپے کے اضافی فنڈز مہیا کیے گئے جب کہ اگلے مالی سال بھی صحت عامہ کے جاریہ میزانیہ میں ادویات وسازوسامان کی خریدکے لیے ہسپتالوں میں تقریباً 700ملین روپے کا اضافہ کیے جانے کی تجویز ہے۔ محکمہ صحت عامہ کی ضرورت کے پیش نظررواں مالی سال میں مختلف ہسپتالوں و صحت عامہ کے دیگرطبعی مراکز کے لیے تقریباً 240آسامیاں تخلیق کی گئیں دوران انتخابات عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ علاج معالجہ کی سہولیات ان کی دہلیز پر مہیا کی جائیں گی جس کے لیے پہلے مرحلہ میں تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال سماہنی ضلع بھمبر اور منگ ضلع سدھنوتی کو اپ گریڈ کرتے ہوئے تحصیل ہیڈ کوارٹرکا درجہ دیا گیا اوران مراکز کے لیے مطلوبہ سٹاف اور دیگر وسائل بھی فراہم کیے جاچکے ہیں جبکہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال عباسپور کو مزید سٹاف بھی مہیا کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ مال کی طرف سے آئندہ مالی سال کاریونیو ہدف جوکہ رواں سال سے 17فیصد زائد یعنی 36.500ارب مقررکیاگیا ہے کو بھی حاصل کرلیاجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ گرین پاکستان عمران خان، چیئرمین تحریک انصاف کا خواب اور مشن ہے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے ترقیاتی پروگرام کے تحت آزادکشمیر میں بھی Ten Billion Tree Sunami Progrmmeکے تحت محکمہ جنگلات اس پروگرام کو کامیابی سے مکمل کررہاہے۔اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے آزادکشمیر محکمہ جنگلات کے لیے 19284.890ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جس کے تحت آزادکشمیر میں ہرسال شجرکاری اور دیگر کام تیزی سے جاری ہیں۔انہوں نے کہا کہ منگلا ڈیم سے نکاسی مچھلی کے ٹھیکہ سے سالانہ تقریباً 67ملین روپے کی آمدن ہورہی ہے موجودہ حکومت گزشتہ چندسالوں کے دوران بننے والے ہائیڈل پراجیکٹس گل پورضلع کوٹلی کے علاوہ نیلم جہلم اور پترینڈ ضلع مظفرآبادکی چھوٹی جھیلوں میں مچھلی کی پیدوار کا عمل شروع کرنے جارہی ہے، اس سے حکومت کی آمدنی میں مزید اضافہ ہو گا ۔آزادکشمیرمیں بجلی کی ترسیل کے نظام کو موثربنانے کے لیے رواں مالی سال کے دوران محکمہ توانائی و آبی وسائل کو ترقیاتی اور نارمل میزانیہ سے خطیر فنڈز مہیا کیے گئے آزادکشمیر بھر کے سرکاری اداروں اور واٹر سپلائی کے لیے ٹیوب ویلز پر میٹر نصب کئے گئے اس سے بجلی چوری کی حوصلہ شکنی ہو گی اور حکومت کومعقول بچت بھی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہبنک آف آزادجموں و کشمیرروایتی بنکاری خدمات سمیت آزادریاست کی معاشی و سماجی ترقی میں نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے ۔بنک نے سال 2021میں458ملین روپے منافع کے حصول کے علاوہ 19.2ارب روپے کے ڈیپازٹس تاریخ کی بلندترین سطح پر لے جانے میں نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ اثاثہ جات کی مالیت25.30ارب روپے تک پہنچائی ہے جو یقناً بینک کی کارکردگی کی واضح مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ بینک آف آزاد جموں و کشمیر کے ترسیلات زر4.250 ارب روپے ہو گئے ہیں جوکہ بینک کے قیام سے اب تک سب سے زیادہ ہیں۔آزاد کشمیر میں سیاحت کی ترقی، صحت عامہ کی بہتری، خواتین کو با اختیار بنانے سمیت قرضہ جات کی خصوصی سکیمیں شروع کی گئی ہیں۔بینک نےCSR کے تحت صحت مند معاشرے کی ترقی کے لئے کھیلوں سمیت دیگر سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔الحمدللہ، ریاستی بینک اس خطے کی فنانشل مارکیٹ میں سرگرم کھلاڑی کے طور پر کام کرتے ہوئے ترقی اور کامیابی کی نئی بلندیاں چھو رہا ہے۔ اور انشااللہ بہت جلد کامیاب بینکوں کی صف میں شامل ہو جائے گا۔
وزیرخزانہ عبدالماجد خان نے اپنی بجٹ تقریر میںملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کے متعلق ایوان کو بتایا کہ سرکاری ملازمین کسی بھی حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں تحریک انصاف کی حکومت ملازمین کے معاشی حالات بہتربنانے کے لیے بھرپورکوشش کررہی ہے ۔وفاقی حکومت نے یکم جولائی 2022ء سے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور حاضرسروس ملازمین کے لیے تنخواہوں میں اضافہ کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلہ میں وزیرخزانہ آزادکشمیر کی سربراہی میں ایک وفد جس میں وزیر منصوبہ بندی و ترقیات وPDO،چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات اور سیکرٹری خزانہ آزادکشمیر بھی شامل تھے۔ مشیربرائے امورکشمیر ، وزیرخزانہ پاکستان ، وزیرمنصوبہ بندی و سپیشل Initiativeکے علاوہ متعلقہ وزارتوںکے آفیسران کی موجودگی میں آزادکشمیر ملازمین کے لئے 15%ڈسپیرٹی ریڈکشن الائونس (DRA) ، نظرثانی شدہ تنخواہ سکیل معہ اضافہ اور پنشنرز کے لئے 15%پنشن کی ادائیگی کا فیصلہ ہوچکاہے۔جس پر حکومت آزادکشمیر بھی عملدرآمد کرے گی۔
قانون ساز اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کا حکومتی رویے کیخلاف بجٹ اجلاس کا مکمل بائیکاٹ
قانون ساز اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن نے حکومتی رویے کیخلاف بجٹ اجلاس کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے قانون ساز اسمبلی کے باہر سیڑھیوں پر متوازی اسمبلی اجلاس شروع کردیا۔اپوزیشن لیڈر چوہدری لطیف اکبر ،سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان،صدر پیپلزپارٹی چوہدری محمد یاسین،صدر جے کے پی پی سردار حسن ابراہیم،میاں عبدالوحید ودیگر نے کہا کہ حکومت اپنے ممبران کو سات سات کروڑ روپے فی حلقہ جبکہ اپوزیشن ممبران کو دو کروڑ کا کہہ کر نوے لاکھ روپے دے رہی ہے سب ممبران برابر ہیں اور عوامی مینڈیٹ لے کر آئے ہیں،اس دوغلی اور پسند وناپسند کی پالیسی کیخلاف اجلاس میں نہیں جائیں گے۔حکومت نے رولز آف بزنس کا مذاق اڑایا ہے ،دفعہ 235ء کے تحت کوئی بھی حکومتی وزیر کسی کمیٹی کا چیئرمین نہیں بن سکتا مگر من پسند اور خلاف ضابطہ ،خلاف آئین ترمیم کر کے وزراء کو کمیٹیوں کا چیئرمین بنادیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مغائر فنڈز کی تقسیم منظور نہیں۔
آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں میزانیہ برائے مالی سال 2022-23اور نظر ثانی میزانیہ 2021-22کے لیے منعقدہ اجلاس میں اپوزیشن کا بائیکاٹ ختم کروانے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے پانچ پانچ رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کے مذاکرات کے دو دور ہوئے ،اپوزیشن نے اسمبلی رولز آف بزنس دفعہ 235 میں ترامیم واپس لینے اور ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے عدالت العالیہ کے فیصلہ پر عملدرآمد کے مطالبات پر عملدرآمد کرنے کی بات کی جبکہ حکومت نے ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے موقف اختیار کیاچونکہ وفاقی حکومت کی جانب سے ترقیاتی بجٹ برائے 2021-22ء کی آخری قسط جاری نہیں ہوئی لہذا اپوزیشن ممبران کو 2کروڑ کے فنڈز جاری نہ سکتے جو 90لاکھ کے فنڈز جاری ہوئے ان پر ہی اکتفاکیا جائے۔اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹی نے متحدہ اپوزیشن کے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں مذاکرات کی تفصیلات سامنے رکھی تو متحدہ اپوزیشن نے متفقہ طورپر اجلاس کے بائیکاٹ اور ایوان کے اندر کے بجائے اسمبلی سیڑھیوں پر اجلاس نما دھرنا دینے کا اعلان کیا۔
اس دھرنے میں قائد حزب اختلاف چوہدری لطیف اکبر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آزادکشمیر کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی ان کا تحریک آزادی کشمیر سے کوئی تعلق ہے یہ غیر سنجید اور غیر فعال ہے حکومت ہے یہاں وزیراعظم اور وزراء کے اپنے اپنے مطالبات ہیں۔تین متوازی حکومتیں بیک وقت کام کررہی ہیں۔تحریک حریت کے راہنما یاسین ملک کی سزا کے خلاف اس حکومت نے عوامی سطح پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔اپوزیشن نے قانو ن ساز اسمبلی کا اجلاس ریکوزٹ کیا تو وزیراعظم اجلاس میں ہی نہیں آئے اور یاسین ملک کی سزا کے خلاف پیش کی گئی قرارداد پر بحث کروائے بغیر اجلاس ختم کردیا گیا۔وزیراعظم نے 19مئی کو آزادکشمیر بھر میں احتجاج کا اعلان کیا گیا مگر یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ تائو بٹ سے بھمبر تک کوئی حکومتی شخصیت احتجاج میں شامل ہوئی اور نہی ہی حکومتی سطح پر کوئی احتجاج ہوا تاہم اپوزیشن نے 25مئی کو چکوٹھی تک لانگ مارچ کیا۔وزیراعظم نے یاسین ملک کی اہلیہ کے ساتھ ملاقات کے دوران قانون ساز اسمبلی میں اجلاس میں شریک ہونے کا اعلان کیا مگر مشعال مل کو دعوت دے کر خود اجلاس میں شرکت ہی نہیں کی۔
قائد حزب اختلاف چوہدری لطیف اکبر نے اس موقع پر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف ،سابق صدر آصف علی زرداری،چیئرمین بلاول بھٹو اور مشیر حکومت قمرالزمان کائرہ ،وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور احسن اقبال کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے آزادکشمیر کے بجٹ پر کسی قسم کی کٹوتی نہیں لگائی۔موجودہ حکمران صرف سیاست اور پوائنٹ سکورنگ کے لیے بجٹ کٹوتی کا ڈرامہ رچا رہے ہیں ایک طرف بجٹ کوٹی پرا پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف سابق وزرائے اعظم،صدر آزادکشمیر،سپیکر ،وزراء اور پارلیمانی سیکرٹریز کے لیے نئی گاڑیاں خریدی جارہی ہیں جو کھلا تضاد ہے۔مالی مشکلات کا ڈھونگ رچا کر ذاتی مفادات حاصل کیے جارہے ہیں۔اس وقت آزادکشمیر میں ملازمین کی مختلف تنظیمیں اور پنشنرز سراپاحتجاج ہیں۔اساتذہ کا احتجاج بھی جاری ہے لیکن حکومت کو عوام کا کوئی خیال نہیں۔
چوہدری لطیف اکبر نے سابق وزرائے اعظم اور صدور کی مراعات،گاڑیوں اور پیٹرول خاتمے کا مطالبہ کیاانہوں نے سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کی جانب سے نئی ملنے والی گاڑی واپس کرنے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف نے کہا کہ رولز میں دفعہ 235 میں تبدیلی کی گئی جس کے لیے غیر قانونی طریقہ اختیار کیا گیا،متحدہ اپوزیشن نے اس طریقہ کار کے خلاف اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور پھر حکومتی رویے کے خلاف بائیکاٹ کیا جو آج تک جاری ہے ۔عدالت العالیہ نے اپوزیشن ممبران اسمبلی کے فنڈز کے اجراء کے لیے احکامات جاری کیے اور چیف سیکرٹری کو طلب کر کے نوٹیفکشن جاری کرنے کا کہا مگر حکومت نے عملدرآمد نہیں کیا جس کے خلاف ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
آج وزرا ہمارے پاس آئے اور بائیکاٹ ختم کرنے کہا جس پر دونوں اطراف 5،5رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے مذاکرات ہوئے جو ناکام ہوئے اور ہم نے سیڑھیوں پر دھرنا دے کر اجلاس منعقد کیا ہے۔ہم چاہتے تو سندھ اور پنجاب اسمبلی کی طرح تحریک انصاف کا طرز عمل اپنا سکتے تھے مگر ہم نے جمہوری طر ز اپنایا ہے احتجاج ہمارا حق ہے اور ہم عوامی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔دھرنا نما اجلاس سے مسلم لیگ ن کی آرگنائزنگ کمیٹی کے چیف شاہ غلام قادر،پیپلزپارٹی کے صدر چوہدری محمد یاسین،ممبر اسمبلی میاں عبدالوحید اور جے کے پی پی کے صدر حسن ابراہیم نے بھی خطاب کیا ور قائد حزب اختلاف کے خیالات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے متحدہ اپوزیشن کے احتجاج جاری رکھنے کے اعلان کی تائید کی۔