سرینگر: بھارتی اخبار ایکسلسیر نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی خفیہ اداروں نے مقبوضہ کشمیر کے 200 سے زیادہ سرکاری ملازمین کے خلاف جانچ پڑتال کا عمل شروع کیا ہے۔ ان کشمیری سرکاری ملازمین کو بھارتی سلامتی کے مفاد میں برطرف کیا جاسکتا ہے ۔ اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں دودرجن سے زیادہ سرکاری ملازمین کو برطرف کیا جا چکا ہے ۔
ایک ہفتہ قبل مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے 13 مئی کو کشمیر یونیورسٹی کے کیمسٹری کے پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین پنڈت کو بھارتی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔ قابل زکر امر یہ ہے کہ جن ملازمین کو ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے انہیں اپنا دفاع کرنے یا اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا ہے۔
ملازمین کی برطرفی کے لیے بھارتی آئین کی دفعہ 311 کی ذیلی شق 2 (سی) کا سہارا لیا گیا ہے جس کے تحت بھارت کے صدر یا ریاست کے گورنر تحقیقات کے بغیر کسی بھی سرکاری ملازم کو ملک کی سلامتی کے مفاد میں ملازمت سے فارغ کر سکتے ہیں۔پانچ اگست 2019 (وہ دن جب کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی گئی) سے قبل بھارتی آئین کی دفعہ 311 کا کشمیر پر اطلاق نہیں ہوتا تھا۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے متذکرہ دفعہ کے تحت کشمیر میں ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں سینکڑوں ملازموں کو برطرف کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے۔ جموں وکشمیر میں مودی کی فسطائی بھارتی حکومت تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کی آڑ میں مختلف محکموں سے مزید کشمیری ملازمین کو برطرف کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیرمیں آزادی پسند تنظیموں کے ساتھ روابط کے الزام میں مزید کشمیری سرکاری ملازمین بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ریڈار پر ہیں اورخدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ انہیں جلد ملازمت سے برطرف کردیا جائے گا۔ جو لوگ ایجنسیوں کے ریڈار پر ہیں ان کا تعلق کشمیر یونیورسٹی کے تدریسی اور غیر تدریسی عملے سے ہیں جبکہ ان میں سے بعض مقبوضہ کشمیرکی انتظامیہ میں بھی کام کر رہے ہیں۔