پاکستان میں سائبر سیکورٹی سے متعلق قوانین اور پالیسیوں میں بہتری لانے کی ضرورت ہے،ماہرین


اسلام آباد ( صباح نیوز ) گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان نے مختلف ریاستی اور غیرریاستی عناصر کی جانب سے کیے جانے والے کئی سائبر حملوں کا سامنا کیا۔ اس خطرے کے پیش نظر اور اس سے نمٹنے کے لیے فعال پالیسیاں اور قوانین وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے قوانین تو موجود ہیں مگر بڑھتے ہوئے سائبر حملوں اور خطرات کو دیکھتے ہوئے ان قوانین اور پالیسیوں کو جامد حالت میں نہیں رکھا جا سکتا۔

ان خیالات کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے سینئر مشیر بریگیڈئر (ر) محمد یاسین نے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونی کیشن (آئی سی ٹی) کے بارے میں ایس ڈی پی آئی کے سٹڈی گروپ کے تحت منعقدہ 63ویں اجلاس کے دوران موضوع کا تفصیلی احاطہ کرتے ہوئے کیا۔پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل برائے سائبر وجیلنس ڈاکٹر محمد مکرم خان نے اس موقع پر کہا کہ ہ میں بلا تاخیر محفوظ قوانین اور پالیسیوں پر عمل درآ مد کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اس شعبے میں بڑھتے ہوئے خطرات کا ذکر کرتے ہوئے ڈیٹا کی چوری پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا بدترین طور پر ہدف بننے والے دس ممالک میں کیا جاتا ہے اس لیے جملہ حقوق اور ٹریڈ مارک وغیرہ کے حوالے سے جرائم پر قوانین بین الاقوامی ضروریات کی مطابقت سے بننے چاہئیں۔ اس ضمن میں پاکستان کو پیکا 2016اور پیکا2022پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں سوشل میڈیا سے متعلق پی ٹی اے کے منظور شدہ آپریٹرزکی خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔

یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر حیدر عباس نے کہا کہ ہم سائبر سیکورٹی کے عہد میں رہ رہے ہیں اور ہ میں اس ضمن میں درکار ہنر مندی کی کمیابی کو دور کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہ میں انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ استعداد سازی اور خصوصی پروگرام وضع کرنے چاہئیں۔ اسی طرح مہارت کے فروغ کے لیے نجی وسرکاری اشتراک کی اشد ضرورت ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو قومی نیشنل سائبر سیکورٹی پالیسی پر عمل درآمد کی کلی ذمہ داری لینی چاہئے۔ سافٹ وئیر کمپنیوں کو انٹنیٹ کے شعبے میں اشتراک عمل کرنا چاہئے اور کلاوَڈ سروسز اور گوگل ڈرائیو وغیرہ پر رکھے جانے والے ڈیٹا کو محفوظ بنانے کے لیے کام کرنا چاہئے۔ لائرنیشیا کے سینئر پالیسی فیلو اسلم حیات نے نے کہا کہ پاکستان کی سائبر سیکورٹی پالیسیاں موجودہ ضروریات سے ہم آہنگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہ میں اس شعبے میں استعداد سازی پر سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ اسی طرح ہ میں خطرات اور چیلنجوں کی نشاندہی کی ضرورت ہے۔پریسائزن کنسلٹنٹنس کی مینجنگ ڈائریکٹر امینہ سہیل نے زور دیا کہ سائبر سیکورٹی کے حوالے سے ہ میں یو این انٹرنیشنل یونین کے تحت سائبر سیکورٹی کے حوالے سے اپنی ریاسی یقین دہانیوں کا جائزہ لینا چاہئے جن میں قانونی، فنی، ادارہ جاتی اور استعداد سازی جیسے امور شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ا?ن لائن موجود غیر قانونی مواد کو ہٹانا پی ٹی اے کی ذمہ داری ہے۔