کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اس شعر میں خدا بندے سے کہتا ہے کہ اگر تم میرے نبیؐ سے وفا کرو گے یعنی آپؐ کی رضا کا خیال رکھو گے تو میں تمہاری رضا اور خواہش کو تمہارا مقدر کر دوں گا۔ پوری دنیا میں کسی بھی مذہب کے ماننے والے کے لئے ہمارے نبیؐ ایک آئیڈیل ہستی ہیں، جس میں نور ہی نور ہے، زندگی کی تمام روشن قدریں ہیں۔ اُن کو رحمۃ اللعالمینؐ بنایا گیا کہ اُن کا فیض ہر انسان تک پہنچے۔ اُن کا پیغام ہر انسان کے لئے کامیابی کی صورت بنے۔ زندگی کو امن، محبت اور شفقت سے گزارنے کی تلقین کرنے والے پیارے نبیؐ کے بد ترین دشمن بھی اُن کی صلۂ رحمی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انھوں نے دنیا کے تمام لوگوں کے لئے آسانیاں تلاش کیں۔ مسجد کو جائے امان بنایا لیکن جو اُن کے اُمتی ہیں انھیں کس نے تباہی اور انتشار کے رستے پر ڈال دیا ہے جو اُن کا نام استعمال کر کے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کو ممکن بناتے ہیں۔ کبھی کسی کو اذیت پہنچا کر، کبھی کسی کی تذلیل کر کے، کبھی کسی کی جان لے کر، آخر ہمیں یہ احساس کیوں نہیں ہے کہ یہ دنیا اور زندگی ختم ہونے والی چیز ہے۔ ہم سب نے ایک دن اِس فانی سرائے سے ہجرت کرنی ہے، اُس ابدی گھر کی طرف جہاں ہمیں ہمیشہ رہنا ہے اور جواب دینا ہے اپنے عملوں کا۔ ہم کس منہ سے یہ سارے بھرم قائم رکھیں گے، کیا جواب ہوگا ہمارے پاس۔ ہم نے آج تک مذہب کو اخلاقی، معاشی اور روحانی ترقی کی بجائے سیاسی مقاصد کے لئے زیادہ استعمال کیا ہے۔ اس میں کوئی ایک فرد، ایک فرقہ، ایک ادارہ شامل نہیں بلکہ جس کا جہاں زور لگا اُس نے اِس میں کوتاہی نہیں کی۔ پہلے فرقہ پرستی اور تقسیم کی بات ہوتی تھی اب نئے نئے مِنی فرقے وجود میں آنے شروع ہوگئے ہیں، عقیدت نئے معنوں میں جلوہ گر ہونے لگی ہے۔ برسوں پہلے ہم نے پستیوں کی طرف جو سفر شروع کیا تھا اب اُس میں دھنستے جا رہے ہیں اور بجائے اِس کے اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور اِس سے نکلنے کی جدو جہد کریں ہم اِسی بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ ہم حق پر ہیں، ہم درست سمت میںہیں۔ اِس سے بڑی کوئی کوتاہی اور جرم کوئی اور نہیں ہوتا کہ جب آپ کسی غلط فیصلے پر ڈٹ جائیں ۔ کوئی بھی انسان حرفِ آخر نہیں ہوتا، انسان خطاؤں کا پتلا ہے۔ چیزیں مشاورت سے طے ہوتی ہیں ایک فرد اگر فیصلے تھونپنے شروع کر دے تو پھر بربادی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسے جمہوری رہنمابھی گزرے ہیں، جن کا انداز حکمرانی آمریت سے کہیں زیادہ ظالمانہ تھا۔ رمضان المبارک کی آخری مقدس راتوں میں روزئہ رسولؐ کے سامنے جو کچھ ہوا اُس نے پوری دنیا کو ششدر کر دیا ہے۔
ہم تعارف کے خانے میں موجود پرانے دھبے دھونے کی کوشش کی بجائے نئے داغ لے کر زمانے کے سامنے آ رہے ہیں۔ جب ہم مسجد نبویؐ کے تقدس کا خیال نہیں رکھ سکتے تو دنیا ہمارے بارے میں یہ کیسے خیال کرسکتی ہے کہ ہم پُرامن لوگ ہیں اور برداشت کے قائل ہیں۔ گھر کے صحن میں کہنے والی بات کو دنیا بھر میں چوراہوں، چوکوں اور بازاروں میں جلسے کر کے وہاں کا امن وامان برباد کرنے کی کوشش کریں گے تو جگ ہنسائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ کوئی انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں کہ ایک حکومت کے جانے کے بعد ملک ملک میں مظاہرے ہوں۔ اگر یہی روش رہی تو کسی بھی وقت بیرونِ ملک مقیم لوگوں کے لئے کوئی سخت پالیسی بن سکتی ہے۔ دنیا ہماری جنونیت سے خائف ہوتی جا رہی ہے۔
جس شہر میں داخل ہوتے وقت لوگ احتراماََ جوتے اُتار دیتے ہیں۔ میلوں دور ہوٹلوں سے ننگے پاؤں چل کے مسجد نبویؐ میں آتے ہیں، اُونچی آواز میں بات نہیں کرتے اور کوشش کرتے ہیں کہ جتنی دیر وہاں رہیں مراقبے کی صورت میں رہیں۔ اُن فضاؤں سے اُن ہواؤں سے جُڑت بنانے کی کوشش کریں، تصور میں اُس ماحول کو دیکھیں اور خود کو نبیؐ کی بارگاہ میں محسوس کریں۔ اپنی آنکھوں میں جلوے بھریں اور دل کو منور کریں۔ وہاں پر بھی چور چور کےنعرے لگائے۔ شاہ زین بگٹی کے بال کھینچے گئے، کسی کو تھپڑ مارے گئے، عورتوں کو دھکے دئیے گئے۔ وہ نبیؐ جو احترام آدمیت کے علمبردار ہیں، جنہوں نے دنیا بھر کے انسانوں کی عزت اور قدر کو ہمیشہ ترجیح دی، آپؐ کے در پر آپؐکے روضے کے سامنے اُن کے اُمتیوں کی تذلیل کی گئی اِس سے بڑی بے ادبی کیا ہوگی؟ وہ جنونی اور جذباتی لوگ جنہوں نے یہ سب کیا یقیناً بھاری جرمانے اور سزا سے نہ بچ سکیں گے۔ پہلے ہی عرب ممالک میں ہماری نسبت ہمارے ہمسایہ ملک کے لوگ زیادہ تعداد میں کام کرتے ہیں۔ اب ہمارے لوگوں پر اور سختیاں ہوں گی کیونکہ ہم اپنے عمل سے سختیوں کو دعوت دے چکے ہیں۔ عام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو اپنی اپنی جماعتوں کے کارکنوں کی تربیت کرنی چاہیے۔ حق و باطل کا فیصلہ کرنے اور فتوے لگانے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ سیاسی جنگ دلائل کے ذریعے لڑی جاتی ہے سیاسی نعروں سے نہیں۔ اپنے کاموں کی لسٹ بنا کر ووٹ مانگے جاتے ہیں دوسروں کو بدنام اور ذلیل کر کے نہیں۔ اگر دوسرے غلط بھی ہیں تو انھیں عدالتوں میں چیلنج کریں لیکن ملک کو تماشا نہ بنائیں۔ مسجد نبویؐ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے تقدس کی عمارت ہے، جائے امان ہے، وہاں اُس دن پوری دنیا کے لوگ جمع تھے، جنہوں نے ہمارے جذباتی نعرے سُن کر یقیناً ہماری کم علمی، جہالت اور بداخلاقی کے بارے میں ضرور سوچا ہوگا اور شاید دعا بھی کی ہوگی۔ اللہ کرے ہمیں کوئی دعا لگ جائے اور ہم ایک بپھرے ہوئے ہجوم اور جَتھّے سے ایک مہذب معاشرے کے افراد بن سکیں۔
تاجدار حرم ہو نگاہ کرم
ہم غریبوں کے دن بھی سنور جائیں گے
بشکریہ روزنامہ جنگ