معاملہ آئین یا پسے ہوئے طبقے کا ہوتو عدالتیں رات تین بجے بھی کھلیں گی،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ


اسلام آباد (صباح نیوز)چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا  ہے کہ اگر معاملہ آئین یا پسے ہوئے طبقے کا ہوتو عدالتیں رات تین بجے بھی کھلیں گی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی سربراہی میں ارشد شریف کو ہراساں کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی جس سلسلے میں ارشد شریف کی جانب سے وکیل فیصل چوہدری پیش ہوئے۔

دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت ہر کسی کے لیے یہاں موجود ہے، آپ نے کاشف عباسی کا پروگرام دیکھا ہے؟ پروگرام میں حقائق کی تصدیق کے بغیر کیا کچھ کہا گیا، انہوں نے کہا عدالت رات کوکھلی کیوں؟ یہ عوام پرعدالت کا اعتماد اٹھانے کی کوشش کی گئی، عدالتیں رات کو 3 بجے بھی کھلیں گی اگرمعاملہ آئین یا کسی پسے ہوئے طبقے کاہو۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمار کس دئیے کہ ایک بیانیہ بنا دیا گیا کہ عدالتیں کھلیں، عدالتیں کھلیں گی اور کسی کو آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گی، آپ لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد ختم کررہے ہیں، اس عدالت کا بھی کہا گیاکہ چیف جسٹس عدالت پہنچ گئے، آپ چاہتے ہیں کہ عدالت فوری نوعیت کی درخواستیں نہ سنے؟۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے ایک نہیں، عدالتی اوقات کارکے بعد بہت سی درخواستیں سنیں، کوئی ذمہ داری بھی ہوتی ہے، آپ کو توخوش ہونا چاہئے کہ آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جارہی، سپریم کورٹ نے واضح پیغام دیا کہ آئین کیخلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

معزز چیف جسٹس نے کہا کہ سب لگے ہوئے ہیں کہ عدالتیں کھل گئیں، آپ سمجھتے ہیں کہ عدالتیں نہیں، آپ کا چینل آئین کو بہترسمجھتا ہے؟ جھوٹ کے اوپر ایک بیانیہ بنادیا گیا ہے کہ عدالتیں کھل گئیں۔عدالت نے اے آر وائی کے اینکر پرسن سے سوال کیا کہ آپ کے چینل نے مسنگ پرسنز یا بلوچ سٹوڈنٹس سے متعلق کتنے پروگرام کیے؟ اے آروائی نے مسنگ پرسنز کے لیے کتنی آواز اٹھائی جو اصل ایشو ہے؟۔

اینکر پرسن نے جواب دیا نامعلوم لوگوں کی جانب سے ہدایات آتی ہیں نہ چلائیں ، ایسی خبریں چلانے پر دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 2019میں ہم نے پالیسی بنائی کسی بھی وقت آپ پٹیشن فائل کر سکتے ہیں ، آپ چینل ڈرتے ہوں گے یہ عدالت کسی سے نہیں ڈرتی ، صرف اللہ سے ڈرتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی بیانیے کیلئے اداروں کوتباہ کررہے ہیں اور ایسا پہلی بار نہیں ہورہا،  بنیادی حقوق کے لیے عدالت کھلیں گی، ان بیانیوں سے کچھ نہیں ہوگا، سپریم کورٹ کے اعلی ججز سے متعلق باتیں ہوتی ہیں کہ وہ جواب نہیں دے سکتے؟ جہاں پر ہم سے غلطی ہوتی ہے ضرور بتائیں۔