آئینی مسائل کے حل کے لیے آئینی عدالت ناگزیر ہے۔ فرحت اللہ بابر

اسلام آباد (صباح نیوز) پیپلز پارٹی کے انسانی حقوق سیل کے صدر سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ تاریخی موقع ہے وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو ہموار کر کے آئینی انتشار کو ختم کر دیں،خطرناک رجحان سے بچاؤ کے لیے ججوں کے تقرری کے طریقہ کار کو بدلنا ضروری ہے۔   سول سوسائٹی کے ساتھ ایک مکالمے سے خطاب کر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ ججوں کی تقرری خطرناک حد تک مرکزی حیثیت اختیار کر گئی ہے کیونکہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے تنہا سو سے زیادہ ججوں کو تعینات، مزید سو ججوں کو خود ہی برطرف کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ججوں کی اہلیت اور دیانت پر سوال اٹھانا نہیں ہے جو اس طرح ایک فرد کے ذریعہ منتخب کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعلی عدالتوں کو ہم خیال ججوں سے بھرنا اور اسے فوجی بٹالین کی طرح ایک یونٹ میں تبدیل کرنا ایک کہیں زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے 18ویں ترمیم کے ذریعے ججوں کی تقرری کو منطقی بنانے کی کوشش کی لیکن چوہدریافتخار  کی قیادت میں عدلیہ اس کی راہ میں رکاوٹ بنی اور دھمکی دی کہ اگر پارلیمنٹ خود اس شق پر نظر ثانی نہیں کرتی تواٹھارہویں آئینی ترمیم کو کالعدم کر دے گی۔ بدقسمتی سے پارلیمنٹ اور سیاسی پارٹیاں گھبرا گئیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ عدلیہ نے خود جرنیلوں کو آئین کو دوبارہ لکھنے اور نافذ کرنے کی اجازت دی لیکن عوام کو پارلیمنٹ میں اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے یہ حق استعمال کرنے سے روکتی رہتی ہیں۔آئینی مسائل کو صرف حل کرنے کے لیے آئینی عدالت کی ضرورت ہے تاکہ عام مقدمات کے بوجھ کو کم کیا جاسکے اور آئینی مسائل کے حل میں صوبائی توازن کا عنصر شامل کیا جاسکے۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر سینیٹ قائم کر کے صوبوں کے درمیان وفاقی اکائیوں کوبرابری دی گئی ہے تو اس میں تمام صوبوں کے ججوں کی یکساں تعداد فراہم کر کے عدالتی طاقت کو بھی صوبوں کے درمیان متوازن کیوں نہیں کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ تقریبا چار لاکھ مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں،جن میں سے 60 ہزار سے زائد سپریم کورٹ میں ہیں کیونکہ سیاسی اور آئینی مقدمات کو ترجیح دینی ہوتی ہے اور ان میں وقت بھی لگتا ہے۔انہوں نے کہا کہ چوہدری افتخار کے زمانے سے دیکھا جا رہا ہے کہ آئین وہ نہیں تھا جو آئین میں لکھا گیا تھا بلکہ وہ جو خود سمجھتے ہیں، جیسا کہ آرٹیکل 63-A کا معاملہ تھا۔ اس لئے آئینی عدالتوں کا قیام اور بھی ضروری ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق اور صوبوں کے درمیان مسائل کے حل کے لیے آئینی عدالت کی ضرورت ہے۔ آئینی عدالت کے ریاست کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہونے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاست کا بنیادی ڈھانچہ اختیارات کی علیحدگی، عدلیہ کی آزادی اور شہریوں کے بنیادی حقوق پر منحصر ہے۔ سیمینار سے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک، بیرسٹر مسعود کوثر، سی ای او بھٹو فاو نڈیشن آصف خان، جنرل سیکرٹری پی پی پی ایچ آر سیل سمانہ ملائکہ رضا نے بھی خطاب کیا۔ وکلا، ماہرین تعلیم، میڈیا، سابق سرکاری ملازمین، سیاسی کارکنوں ، سول سوسائٹی اور دیگر ممبران کے ساتھ انٹرایکٹو سیشن ہوا۔