ملکہ لیلو کلانی سے عمران خان تک… (3 )… تحریر اوریا مقبول جان


امریکہ جب بھی دنیا کے کسی ملک میں قائم حکومت کو ختم کرنے کے لئے اپنی کوششوں کا آغاز کرتا ہے تو اس کی بنیاد یوں تو سی آئی اے کی تنظیم کا خفیہ فیصلہ ہوتا ہے لیکن اس کے نفاذ سے پہلے پوری ریاستی مشینری کو ایک اخلاقی جواز ضرور فراہم کیا جاتا ہے۔ امریکی جمہوریت نے اپنے تمام اداروں میں یہ تصور ایک زمینی مذہب کی سطح پر مضبوط کر رکھا ہے کہ ہم امریکی دنیا کی سب سے راست باز اور منصف مزاج  قوم ہیں اور جو قوت اور طاقت ہمیں حاصل ہے اس کی بنیاد پر امریکہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اس راست بازی کے معیار اور تصورِ زندگی کو ان تمام ملکوں اور قوتوں پر نافذ کرے جن کے بارے میں امریکی حکومت یہ فیصلہ صادر کر دے کہ یہ پسماندہ اور معاشرتی طور پر بے اصول ملک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی امریکہ نے انتظامی سطح، یعنی دفتر خارجہ و وزارتِ دفاع میں یہ فیصلہ کیا کہ فلاں ملک کی حکومت بدل دو اور اس کے بعد اگر کانگریس میں بھی کھلے عام یہ بحث ہوئی کہ فلاں ملک کی حکومت کو بدلنا، امریکہ اور دنیا دونوں کے مفاد میں ہے تو پھر ایسے فیصلے پر عمل درآمد شروع کرنے میں انہیں ایک لمحے کی بھی دیر نہ لگی۔ تمام امریکی منتخب جمہوری نمائندے ایک لمحے کے لئے بھی بالکل شرم محسوس نہیں کرتے کہ وہ کسی آزاد و خودمختار ملک کے خلاف ظلم کرنے جا رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے سامنے کسی ملک کے حکمران کو بدلنے کے پیچھے سب سے بڑی یہ دلیل ہوتی ہے کہ وہ ہماری کارپوریشنوں کو اپنے ملک میں پیدا ہونے والی معدنیات بیچنے سے انکار کر رہا ہے اور اگر وہ ایسا کرے گا تو پھر امریکی معیشت ایک دم ڈوب جائے گی، لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے، یہاں تک کہ ہم اپنے شہریوں کا علاج معالجہ بھی کرانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اسی لئے فوری طور پر یہ ضروری ہے طاقت یا ترکیب استعمال کر کے اس گستاخ حکمران کو بدل کر اس ملک میں ایک ایسا حکمران لایا جائے جس کے اقتدار میں آنے کے بعد ہماری معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب بھی امریکہ نے کسی ملک میں حکومت کو تبدیل کرنے کا آپریشن شروع کیا، اس کے اپنے میڈیا نے بھی اس کا اخلاقی جواز فراہم کیا اور اس کے جمہوری اراکین کانگریس نے بھی ڈیسک بجا کر اس کی حمایت کی۔ اس خفیہ یا کھلے عام آپریشن میں ان غریب ملکوں میں جتنے بھی معصوم لوگ مارے جائیں، امریکی اشرافیہ اور عوام اسے جائز، درست اور دنیا کی بہتری کے لئے ضروری سمجھتے ہیں اور امریکی عوام کی اکثریت کے دلوں میں ذرا ملال تک نہیں آتا۔ یہی نہیں بلکہ وہ امریکی سینیٹر جو کٹر عیسائی رجحانات رکھنے والے ہوتے ہیں وہ اس کارروائی کا جواز انجیل مقدس کی آیات سے نکالتے رہتے ہیں۔ پہلی جنگِ عظیم میں امریکہ کئی سال جنگ سے بالکل علیحدہ تھا، لیکن پھر ایک دم اس نے 1917 میں جرمنی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کا اعلان کر دیا۔ امریکی صدر ووڈرو وِلسن  نے کانگریس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ “There is a mighty task before us…..it is to make the United States a mighty Christian nation and to Chirstianize the world.” ہمارے سامنے یہ ایک کٹھن کام ہے۔ ہمیں امریکہ کو ایک طاقت ور عیسائی قوم بنانا ہے اور ساتھ ہی پوری دنیا کو ایک عیسائی دنیا میں بھی تبدیل کرنا ہے۔ چونکہ ووڈرو وِلسن کوئی پادری نہیں تھا اور اس کی بات کا مذہبی اثر کم تھا اور ساتھ ساتھ امریکہ میں چند سیکولر آوازیں بھی موجود تھیں، اس لئے ان لبرل حضرات کی تسلی کے لئے کانگریس کے کچھ اراکین نے دھواں دھار تقریریں کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس جنگ میں برطانیہ اور فرانس کا ساتھ دینا چاہئے تاکہ وہ جرمنی سے جنگ جیت کر ہمارے وہ قرضے واپس کر دے، جو اس نے اسلحہ کے تاجروں سے ادھار پر اسلحہ لے کر اپنے اوپر چڑھائے ہیں۔ یعنی امریکہ نے پہلے لوگوں کو قتل کرنے کیلئے اسلحہ بیچا اور پھر اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ جس ملک کو اسلحہ بیچا ہے وہ جیت جائے اور اس کے اسلحہ تاجروں کا سرمایہ نہ ڈوبے۔ یہ ہے انسانوں کے قتلِ عام کے پیچھے اخلاقیات کا ڈھنڈھورا اور کارپوریٹ مالی مفادات کا تحفظ۔ امریکی حکمران اور عوام دونوں آج تک ان دونوں اعلی تصورات کی بنیاد پر کسی بھی ملک میں امریکہ کے خفیہ طور پر یا بزورِ قوت حکومت بدلنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ووڈرو وِلسن کی جنگِ عظیم میں شرکت سے لے کر جارج بش کے صدام حسین کے خلاف حکومت بدلنے کیلئے عراق میں فوجیں اتارنے تک، ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ امریکہ یا اس کے حواریوں نے کبھی شرمندگی کا اظہار کیا ہو یا وہ ایسی تمام جنگوں کو انسانیت کے خلاف جرم سمجھتے ہوں۔ ان کے نزدیک تو امریکی مفادات ہی دراصل اخلاق، انصاف اور مذہب ہیں۔ گذشتہ پچاس سالوں میں امریکہ نے خود کو اس قدر دنیا کے ممالک میں پھیلا لیا ہے کہ اب اسے کسی ملک پر بہت کم ہی براہِ راست حملے کر کے حکومت بدلنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس نے دنیا بھر کے ممالک میں اپنے غلام، ٹوڈی، کاسہ لیس، بِکاؤ اور غدار خرید رکھے ہیں۔ امریکہ کی یہ سرمایہ کاری تین طبقات میں ہے۔ سیاست دان یا اہم سیاسی گروہوں کے قائد، صحافی اور اس ملک کی مسلح افواج۔ ان تینوں کو مراعات دینے، سرمایہ فراہم کرنے اور خریدنے کے لئے الگ الگ پروگرام ترتیب دیئے ہوئے ہیں اور الگ لائحہ عمل ہیں۔ مسلح افواج کو پہلے اسلحے کی سپلائی اور فوجی سازوسامان کی مدد کے ذریعے غلامی کی لت کا شکار کر کے، اسے امریکی محبت کے نشے میں گرفتار کیا جاتا ہے اور اس کی مسلح افواج یہ سمجھنے لگتی ہیں کہ ہم امریکی اسلحہ کے بغیر بے کار ہیں۔ سیاست دانوں کو امریکی سفارت کار اپنے دامِ محبت میں گرفتار کرتے ہیں، ان کے لئے لاتعداد دورے اور آؤ بھگت ہوتی ہے، اور تیسرا گروہ صحافیوں کا ہے جو بیچارے مفلوک الحال ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تھوڑے سے ڈالروں پر اپنے ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں۔ امریکہ کا حکومتوں کو بدلنے کا آپریشن ہمیشہ خفیہ طور پر بِکاؤ صحافیوں کی پروپیگنڈہ مہم سے شروع ہوتا ہے، اس میڈیا کی مہم کی چھاؤں میں سیاست دانوں کو حکومتوں کے خلاف تیار کیا جاتا ہے اور پھر آخر کار اس ملک کی مسلح افواج کو ملک کی سلامتی کے نام پر مداخلت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ چلی اور جنوبی ویت نام اس کی بدترین مثالیں۔ چلی جنوبی امریکہ کا سب سے پر امن ملک تھا، جہاں شرح خواندگی بہت زیادہ تھی، ایک بڑی تعداد مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی، لیکن ملک میں غریب عوام کی بھی کمی نہ تھی۔ چلی کے عوام کی بدبختی اور شامت اس دن سے شروع ہوئی جب انہوں نے اپنی حالت بدلنے کے لئے ایک غیرت مند اور باوقار سیاسی رہنما آلندے کو منتخب کر لیا۔ وہ چلی کی تاریخ کا سب سے مقبول لیڈر تھا۔ اس نے جیت کے بعد اعلان کیا کہ اگر چلی میں موجود تانبے کی کانوں پر دو امریکی کمپنیوں اینا کونڈا  اور کینوکوٹ  کا قبضہ ختم کر کے اسے قومی ملکیت میں لے کر اس کی تجارت سے حاصل کردہ دولت مستحق عوام میں تقسیم کی جائے، ان کے لئے پروگرام بنائے جائیں تو چلی سے غربت بالکل ختم ہو جائے۔ اس کا یہ اعلان امریکیوں کو مشتعل کرنے کے لئے کافی تھا۔ امریکیوں کے نزدیک دو گناہ ناقابلِ معافی ہیں پہلا یہ کہ آپ اپنے عوام کے دلوں میں بستے ہوں اور دوسرا یہ کہ آپ خوددار اور غیرت مند ہوں۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ 92