ایک جملہ جو آئینہ تھا۔۔۔تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


جب شہباز شریف صاحب نے یہ کہا کہ منگتوں کے پاس انتخاب کا حق نہیں ہوتا تو کچھ لوگوں نے اسے جس طرح ٹھٹھہ بنایا وہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی اور بطور قوم قابلِ رحم حالت پر ترس بھی آیا کہ ہم شعوری اور سیاسی طور پر اپنے حالات و معاملات سے اس قدر ناواقف ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس جملے کی گہرائی میں جاکر اس پر غور کرتے۔ ایک باشعور قوم کی طرح اس کا تجزیہ کرتے۔شہباز شریف صاحب نے جو آئینہ دکھایا تھا اس میں اپنی اور اپنے وطن کی صورتحال دیکھتے تو سب پر کھلتا کہ یہ جملہ کتنا سچا تھا اور یہ شاید ہمارے پورے 75سال کا تجزیہ تھا۔ ہماری تمام ناکامیوں اور کوتاہیوں کا پیش خیمہ تھاجسے ہماری ترجیحات کا نقطہ آغاز ہونا چاہئے تھا، وہ ہمارے لئے مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ۔ خارجہ پالیسی معاشی استحکام سے جڑی ہوتی ہے۔ یوں اس جملے میں ہماری ساری سیاسی جدوجہد اور خوابوں کی تعبیر کا بیانیہ شامل تھا۔ اگر ہم سوجھ بوجھ رکھنے والے ہوتے تو رک جاتے، خود کو بدلنے کا عہد کرتے۔ شرمندہ ہوتے۔ خود سے پوچھتے کہ ہمیں کیسے غلامی کی اس دلدل سے نکلنا ہے جس میں ہم پورے کے پورے دھنس چکے ہیں۔ دلدل سے اکیلے نکلنا بہت مشکل ہوتاہے اس کے لئے سب کو مل کر جدوجہد کرنا ہوتی ہے لیکن ہم میں سے اکثریت نے اس جملے کو تضحیک کا رنگ دیکر عجیب طرح کے ٹرینڈز شروع کر دئیے۔ آزادی اور غلامی کے نئے نعرے ایجاد ہونے لگے۔ قول کی حد تک غلامی کی بجائے خود داری کا رستہ اختیار کرنیوالوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ آئی ایم ایف سے کیسے بچیں گے، جس نے ہماری سوچ اور ہوائیں تک رہن رکھنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ خود داری کا رستہ اختیار کرنے کیلئے ایک لمبی جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ سب سے پہلے آپ کو اپنی ذات اور ملک کو قرضوں کے عفریت سے نجات دلانا ہوگی،جس نے آپ کو گلے سے پکڑ رکھا ہے، جس نے آپ کا سانس لینا دوبھر کر رکھا ہے۔ آج کے دور میں معاشی آزادی کے بغیر کسی قسم کی آزادی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ اب یہ ممکن نہیں کہ آپ دنیا سے کٹ کر ایک چھوٹے سے جزیرے میں رہیں جہاں آپ کواپنی ضرورت کی تمام چیزیں میسر ہوں اور کسی کے محتاج نہ ہوں۔ اب تو لمحہ لمحہ بدلتی عالمی صورتحال ہماری معیشت اور زندگیوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسے میں ایک محب وطن پاکستانی کو منطقی اندازمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔پہلے اپنے پاؤں زمین پر مضبوطی سے جما لیں، خودداری کی منزل کی طرف جانے والے رستے کا تعین کرلیں، اپنے ارد گرد نظر نہ آنے والی بے شمار زنجیروں سے نجات حاصل کر لیں تو پھر آزادی کی بات کرنا بھلا لگتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت پاکستان آئی ایم ایف کے کڑے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ ہم ان کی مرضی کے بغیر کوئی عمل کرنے کے مجاز نہیں۔ ایسے میں کیسے کھوکھلا نعرہ لگاکر خود کو دھوکا دیا جا سکتا ہے۔جس طرح کی روش چل نکلی تھی اس کا انجام تباہ کن تھا۔ ہم صدام حسین اور کرنل قذافی جیسے جذباتی لوگوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

ہمیں یقیناً بردبار اور معاملات کی نزاکتوں کو سمجھنے والے سیاسی رہنما کی ضرورت تھی جو قوم کو جھوٹے نعروں کی بجائے سچ کا آئینہ دکھائے۔ مجھے واثق امید ہے کہ شہباز شریف جنہوں نے پنجاب کی خدمت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا،خادم پاکستان بن کر خوشحالی اور معاشی استحکام کو ترجیح بنائیں گے اور مہنگائی کے ہاتھوں بلبلاتی مخلوقِ خدا کے دکھوں کا مداوا کریں گے۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج کم آمدنی والے طبقے کی مشکلات کا ازالہ ہے۔ ممی ڈیڈی کلاس کویقیناً مہنگائی اور آلو پیاز کے ریٹ سے کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن محدود آمدنی والے لوگوں کی زندگی امتحان بن چکی ہے۔اگرچہ نئی حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوگا مگر اطمینان کی بات یہ ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں ملک کے وسیع تر مفاد کے لئے متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ سب کا منشاء عوام کی بھلائی اور ملک کی ترقی ہے۔ملک کے تمام اداروں کو حالات کی نزاکت کا احساس ہو چکا ہے اور ملک کی فکر نے انھیں ایک پیج پر لا کھڑا کیا ہے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ملک تگڑا ہے تو ہم بھی باوقار اور طاقتور ہیں۔اصل بات سب کی رائے اور مشورے کا احترام اور سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی انتھک محنت سب پر عیاں ہے۔پنجاب کو اس کے حقوق کے ساتھ ساتھ سندھ، بلوچستان اور کے پی میں شامل ہونے والے نئے علاقوں خصوصاً وزیرستان کی ترقی کو پہلی ترجیح بنانے کی ضرورت ہے۔ کسی شہر یا صوبے کے ماتھے پر محرومی کا عکس اور آنکھوں میں خوف کی پرچھائیں نہ رہے۔اے وطن تو آباد رہے اورہم سب شاد رہیں ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ