اڑتالیسواں او آئی سی اجلاس۔۔۔تحریر،عائشہ کوثر


‎پاکستان میں  پچھلے دنوں منعقدہ او آئی سی کانفر نس میں  تقریباً  46  سےزیادہ مسلم ممالک   کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی تھی اور جن ممالک کے وزراء خارجہ کسی  وجہ سے شرکت نہیں کر سکے انھوں نے  وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
‎اگر ہم او آئ سی کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو اس کی بنیاد ایسے وقت ڈالی گئ جب ایک آسٹریلوی  شہری ڈینس مائیکل جو عیسائیت( مذہب) کا پیروکار تھا نے  21 اگست 1969 کو مسجد اقصٰی میں موجود  800 سالہ قدیم منبر کو آگ لگا دی   اس آگ کی لپیٹ میں مسجد اقصٰی کی چھت  بھی آگئی تھی۔
‎اس واقع کے بعد تمام مسلمان دنیا میں تشویش کی لہر دوار گئی ۔اس وقت  کے مفتی امین الحسینی  (مفتی اعظم فلسطین ) نے سخت احتجاج کیا اور پورے عالم اسلام پر زور دیا کہ یکجا ہو کر  فلسطین کے لیے اقدام کریں ۔مفتی امین الحسینی کی پکار پر سعودی عرب اور  مراکش  کے رہنماؤں نے مثالی کردار ادا کیا اور  تمام مسلم امہ کے رہنماؤں کو مراکش کے  شہر رباط میں اکٹھے کیا۔
‎25 دسمبر 1969ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئ۔  او آئ سی کے قیام کے  بعد سعودی عرب کے بادشاہ نے مزید قدم اٹھایا اور تمام اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کا  پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقد  کروایا۔

‎او آئی سی کی اگر باقاعدہ تنظیم سازی  کی بات کی جائے  تو او آئ سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل 1972ء میں دی گئی اور  طے کیا گیا کے تمام  وزرائے خارجہ کا اجلاس کسی بھی اسلامی ملک میں ہر سال جبکہ سربراہی اجلاس ہر تین سال کے بعد منعقد ہو گا۔
‎1974ء میں  پاکستان میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس  واحد کانفرنس تھی جس میں   تقریباً سب اسلامی ممالک کے سربراہوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کو بھی کامیاب بنانے میں اس وقت کے سعودی بادشاہ شاہ فیصل نے اہم کردار ادا کیا اور اسی کانفرنس کے انعقاد کے بعد مسلم دنیا میں شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو، یاسر عرفات اور معمر قذافی عظیم لیڈر بن کر ابھرے اور انہیں عالمی سطح پر بھی پذیرائی حاصل ہوئی۔
‎اس سربراہی کانفرنس میں مفتی امین الحسینی ، سعودی فرمانرواہ شاہ فیصل ،یاسر عرفات فلسطین سے، عیدی آمین  یوگنڈا سے، بومدین تیونس سے ، کرنل قذافی  لیبیا سے، انوار سادات مصر سے، حافظ الاسد شام اور دیگر بڑے رہنماؤں نے شرکت کی۔
‎اس تنظیم کو ایک وقت میں ایسا عروج حاصل ہوا کہ پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق نے  مسلم امہ کے متفقہ رہنما کے طور پر اقوام متحدہ میں خطاب کیا۔
‎اس کانفرنس کی ناکامیوں پر  اگر بات کریں تو اؤ آئ سی  ایران عراق کے مابین جنگ بندی کرانے میں ناکام رہی۔یوں گزرتے وقت کے ساتھ اس کے اثرات ختم ہوتے گئے اور برائے نام او آئی سی  بن کر رہ گئ۔
‎او آئی سی مسئلہ فلسطین اور کشمیر کو حل کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے علاوہ ازیں عراق کے کویت پر حملے کا بھی موثر حل نکالنے میں ناکام رہی۔
‎اؤ آئ سی  کی بنیاد رکھنے والے تمام کرداروں کو آہستہ آہستہ غیر طبعی موت مار دیا گیا۔لیکن ان رہنماؤں کے کارنامے آج بھی لوگوں کے سامنے ہیں۔
‎اسلامی ممالک میں ہونے والی جنگوں، افلاس، دہشت گردی اور مسلمانوں کے خلاف  انتہاپسندی  کو روکنے کے لیے ہر سال وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔
‎افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد طالبان افغانستان میں برسراقتدار ہیں۔ افغانستان میں  سگین انسانی بحران  کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے   پاکستان نے  وزرائے خارجہ  کا 19 دسمبر کو اجلاس طلب کیا تھا اب تین ماہ کی قلیل مدت کے  بعد پھر یہ اجلاس اسلام آباد میں پاکستان کی حکومت نے طلب کیا تھا ۔ اس اجلاس کی خاص بات یہ رہی کہ چین کے وزیر خارجہ کو بھی پاکستان کی طرف سے شرکت کی  دعوت دی گئی ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ چین کی شرکت اور رکن ممالک  کے ساتھ بات چیت سے مزید  روابط استوار ہوں گے۔چین کے وزیر خارجہ نے نے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات بھی کی ہے اور خطے کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے ۔ چین کے وزیر خارجہ نے نے اؤ آئی سی اجلاس میں اس وقت شرکت کی ہے جب چین کو مغرب کی جانب سے مسلمان  شہریوں سے ناروا سلوک  رکھنے پر کافی تنقید کا سامنا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ کااجلاس میں شرکت کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اس سے پہلے کئی کانفرنسوں میں امریکا اور بھارت بھی شرکت کر چکے ہیں۔
‎اس اجلاس کا مقصد بھی افغانستان تھا ۔ لیکن افغان وزیر خارجہ نے کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی ۔
‎اس اجلاس میں افغانستان  کے اندرونی مسائل کےساتھ ساتھ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے پر  بھی بات کی گئی۔ 48 ویں اجلاس کی صدارت شاہ محمود قریشی نے کی   اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان  نے افتتاحی سیشن سے خصوصی خطاب کیا۔  اسلامی دنیا کو باور کروایا کہ ہم فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہو گے ہیں ان مسائل کے حل کے لیے ہمیں نئے سرے سے حکمت عملی تشکیل دینی ہو گئی۔   پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے  افغانستان سے  اپیل کی کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خاتمے کے لیے کلیدی کردار ادا کرے۔
‎  اس اجلاس میں کشمیر میں  انسانی حقوق  کی سنگین خلاف وزری کا  جائزہ لیا گیا اور فلسطین  کے حالات حاضرہ، افریقہ اور یورپ اور بھارت کے مسلمانوں کو درپیش مسائل، علاوہ ازیں  شام، صومالیہ، سوڈان، لیبیا، یمن میں  پیش رفت پر بھی غور کیا گیا علاوہ ازیں  اسلام فوبیا، دہشت گردی سے متعلق مسائل،  اقتصادی، سماجی، انسانی اور سماجی شعبوں میں تعاون بھی  اس اجلاس کے ایجنڈے میں شامل  رہا۔ان اہم موضوع پر  اکثر ملکوں  کے وزرائے خارجہ نے  خطاب کیا۔