ذرا سوچئے۔۔تحریر محمد اظہر حفیظ


سیاست پیسے کا کھیل بن چکی ہے، میرے ایک دوست نے انگلینڈ سے آزاد کشمیر کے الیکشن میں حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا اور انکی کچھ حکومتی ارکان سے ملاقات ہوئیں توابتدا ایک کروڑ پارٹی فنڈ کے ساتھ ٹکٹ کیلئے اپلائی کریں سے ہوئی۔
عرض یہ ہے کہ اے ایمانداروں جو کہانی شروع ہی کم از کم ایک کروڑ سے شروع ہوتی ہے پھر الیکشن پر خرچے۔ کئی کروڑ لگاکرآپ آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں، بلکل اسی طرح جب ممبر قومی اسمبلی کی سیٹ پر خرچ ایک ارب آئے گا تو آپ نے تو اس کاروبار کی بنیاد ہی کرپشن پر رکھ دی ہے۔ تو پھر صادق اور امین کہاں سے آئیں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی کابینہ دیکھ لیں تقریبا وہی لوگ ہر کابینہ میں نظر آتے ہیں، پارٹی نام بدلتے رہتے ہیں پر لوگ وہی ہوتے ہیں۔ جب ایک شخص الیکشن میں ووٹ کے حساب سے ضروریات یاپیسے دے کر ووٹ حاصل کرتا ہے تو پھر اسکو بھی اپنا ووٹ بیچنے کا مکمل حق ہونا چاہیے۔ یا پھر سسٹم اتنا بہتر بنائیں کہ ووٹ کسی بھی سطح پر خریدنا یا بیچنا جرم ہو اور اسکی فورا سزا ہو۔
اگر ممبران اسمبلی قانون سازی اور خدمت خلق کیلئے آتے ہیں تو پھر ان کو منتخب بھی اسی فارمولے کے تحت کرنا چاہیے۔ چوہدری نذیر مرحوم کوہستان بس سروس والے ہمارے گاوں کے حلقے سے الیکشن لڑتے تھے الیکشن سے پہلے ہی علاقے کے تمام کام اپنے پیسوں سے شروع کروا دیتے تھے ۔ اور کہتے تھے اگر میں الیکشن ہار گیا تو سب اکھاڑ کر لے جاوں گا اور ایسے ہی کرتے تھے۔
آج ایک لطیفہ سرانجام ہوا، ریڈ زون میں واقع سندھ ہاوس جہاں کچھ حکومتی ممبران قومی اسمبلی حکومت کے خلاف چلنے کیلئے ٹھہرے ہوے ہیں ۔ کو ذلیل کرنے کے لئے حکومتی پارٹی کے ورکر پہنچ گئے ۔ ریڈ زون میں عام عوام کا داخلہ تقریبا بند ہے، وہاں باآسانی اتنے لوگوں کا پہنچ جانا پھر توڑ پھوڑ کرنا یقینا کسی کی تو آشیر آباد تھی۔ پھر گرفتار لوگوں کا شخصی ضمانت پر رہا ہوجانا بھی کمال فعل ہے۔ پچھلی حکومتوں نے بھی سپریم کورٹ پر حملے کئے اور باعزت بری ہوگئے۔ فرق کیا ہے نئے اور پرانے پاکستان میں۔ عام آدمی ٹریفک کا اشارہ توڑے تو جرمانہ اور کچھ لوگ سندھ ہاوس میں توڑ پھوڑ کریں تو عام معافی۔ تحریک انصاف کو کم از کم اپنے اسٹینڈرڈ بہتر بنانے چاہیں۔ مجھے تکلیف اس وقت ہوئی جب ان سب کی شخصی ضمانت کیلئے امریکہ کی یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے کو چھوڑ کر آنے والے میرے شہر فیصل آباد کے جٹ پتر تھانے گئے اور سب کو لے آئے۔ مجھے پروفیسر صاحب آپ سے ایسی امید نہیں تھی۔ آپ تو بہت بااصول انسان ہیں، مہذب ترین زبان استعمال کرنے کے لئے مشہور ہیں توپھر یہ منجھی کسی اور کو ٹھوکنے دینی تھی۔ جو جو لوگ اپنے گھر چھوڑ کر آئے تھے تو ایک اور وکٹ گر گئی کا اعلان ہوتا تھا، اب جب وہ گھر لوٹ رہے ہیں تو دفع کریں میچ کھیلتے وقت دونوں ٹیموں کی وکٹ گرتی ہیں۔ حکومت کا سوشل میڈیا کنٹینٹ رائیٹر بھی کمزور ہے اس کمپین میں ۔ بار بار اتنی جماعتوں کے سامنے خان اکیلا کھڑا ہے، معذرت اتنی ساری جماعتوں کے سہارے ہی خان کھڑا ہے۔ جب کہا گیا کہ میں نہیں چھوڑوں گا تو لوگ چھوڑ گئے اب برداشت کریں۔ نسلی کتوں اور آوارہ کتوں میں یہی فرق ہوتا ہے، آوارہ کتے کبھی یہاں کبھی وہاں۔ جب آپ نے جمع ہی آوارہ کتے کئے تھے تو اب شکایت کیسی۔ سب واپس جارے ہیں تو جانے دیں۔ جانے والا بھی کبھی رکا کرتے ہیں، نئے الیکشن کی تیاری کریں ، بجائے آوارہ لوگوں کے خلاف مظاہرہ کرنے کے ۔ آئندہ ٹیم سوچ سمجھ کر بنائیں ، لے پالک کو اولاد بنانے سے گریز کریں اور اپنی اولاد کو میدان میں لائیں۔ تاکہ پانچ سال کی پلاننگ کرکے حکومت کی جاسکے۔ کوئی بلیک میل نہ کریں ۔
مجھے ہمیشہ سے ہی پارٹی بدلبے والوں سے نفرت رہی تب بھی جب یہ اپنی پارٹیاں چھوڑ کر حکومتی پارٹی میں آئے تھے اور آج بھی جب یہ حکومتی پارٹی کو چھوڑ کر واپس آنے والی حکومتی پارٹی میں جارے ہیں تو اس میں نیا یا برا کیا ہے۔ ڈسنا بچھو کی خصلت ہے ۔ اس کو کون تبدیل کرسکتا ہے، بچھو پرانے پاکستان کا ہو یا نئے پاکستان کا ۔
جن کی وزیراعظم صاحب نے ڈیوٹی لگائی ہے ماشاءاللہ وہ تمام بھی یہی ڈگری رکھتے ہیں ۔ اور اگلی حکومت میں یہ چٹانیں بھی زمانے کی ٹھوکروں سے گول ہو کر شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہونگے۔ انکا کردار بس ہرحکومت میں وزیر رہنا ہے ۔ شرم سے عاری لوگ ہیں یہ سب اورانکے ووٹر بھی۔
قرض دار قوم کبھی غیرت مند نہیں ہوسکتی اور قوم کو قرضدار آپ سب نےملکر بنایا ہے۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ لاکھوں کا مقروض ہے ۔ چاہے وہ ہاورڈ یونیورسٹی سے پڑھے یا میرے گاوں کے سکول سے۔ قرضدار کی کوئی عزت نہیں ہوتی، نہ ہی اسکو عزت اور غیرت کی بات کرنی چاہیے ۔ نہ ہی اس کو خطے کا اہم ملک ہونے کا زعم ہونا چاہیے ۔ بس نعرے لگانے چاہیں جو بھی سٹیج سے لگیں اور تقریریں سننی اور کرنی چاہیں۔ اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔