کشمیر فائلزمیں کشمیری مسلمانوں پر سیاسی مقاصد کے لیے الزامات لگائے گئے لبریشن فرنٹ


راولپنڈی(کے پی آئی) جمو ں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے دی کشمیر فائلز نامی بھارتی فلم میں کشمیری مسلمانوں پر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ  بھارتی میڈیا کشمیر سے جڑے ہر معاملے کو تعصبانہ انداز میں پیش کر کے صحافتی بددیانتی  کا مرتکب ہو رہا ہے۔ نوے کی دہائی میں چند کشمیری پنڈتوں کے قتل  پر واویلہ کیا جارہا ہے جبکہ سوا لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کے قتل پر خاموشی اختیار کی گئی ہے ۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ بالخصوص محبوس قائد محمد یاسین ملک ہمیشہ کشمیری پنڈتوں کی کشمیر واپسی کے لیے کوشاں رہے تاہم بھارتی خفیہ اداروں نے ایسا نہیں ہونے دیا ۔

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان محمد رفیق ڈار نے ایک بیان میں کہا کہ بھارت سرکار کی ایماء پر کشمیری حریت پسندوں کی شبیہ کومسخ کرنا بھارتی میڈیا کا ناکام وطیرہ رہا ہے جو رپورٹنگ کے وقت کشمیر سے جڑے ہر معاملے کو تعصبانہ انداز میں پیش کرتے ہوئے نہ صرف صحافتی بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ بھارتی عوام کو بھی اصل حقائق سے نا آشنا رکھتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ ہمارا دین کسی بھی معصوم انسان کے قتل کوپوری انسانیت  کے قتل سے تعبیر کرتا ہے اور ہماری کشمیری ثقافت بھی اسی رواداری اور انسانیت نوازی کی دلدادہ ہے۔ ہم ایک بھی انسان کے قتل کو گناہ عظیم سمجھتے ہیں لیکن صرف ریکارڈ کی درستگی کیلئے اگر ہم موجودہ تحریک آزادی کے دوران از جان ہونے والے انسانوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کریں گے تو خود مقبوضہ جموں کشمیر کے پولیس اعداد و شمار اس بات کے گواہ ہیں کہ جہاں  اس پورے عرصے کے دوران 300 قریب کشمیری پنڈت اور 50کے قریب سکھ برادری سے وابستہ افراد  مارے گئے  وہیں پر سوا لاکھ سے زائد کشمیری مسلمان بھی جان بحق ہوئے ہیں۔ کتنی عجیب منطق ہے کہ 1990 میں پولیس ریکارڈ کے مطابق قتل ہونے والے صرف 90کے قریب کشمیری پنڈتوں کے قتل کو تو بھارتی میڈیااور ایجنسیوں کے مٹھی بھر ایجنٹ نسل کشی سے تعبیر اور تشہیر دیتے ہیںلیکن 1990ء کے صرف ابتدائی چند مہینوں میں بھارتی فوج اور فورسز کے ہاتھوں ہونے والے گاوکدل قتل عام،ہندوارہ قتل عام، کپوارہ قتل عام،سوپور قتل عام، ٹینگپورہ بائی پاس قتل عام اورزکورہ قتل عام کے دوران پانچ سو سے زائد نہتے کشمیری مسلمانوں کے قتل عام پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔

ہم دی کشمیر فائلز نامی فلم بنانے والوں اور بھارتی میڈیا اور اشرافیہ سے سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا انہیں اس قسم کی منافقت پر شرم بھی محسوس نہیں ہوتی۔ ترجمان نے مزید کہا کہ بھارتی فلم انڈسٹری کے ہدایتکار وِوِک اگنی ہوتری کی کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی پر بنائی جانے والی فلم ”دی کشمیر فائلز” کی کہانی موصولہ اطلاعات کے مطابق زمینی حقائق سے کوسوں دور، یکطرفہ اور جانبداری پر مبنی ہے جو بالعموم کشمیری مسلمانوں اور بالخصوص حریت پسندوں کے خلاف نہ صرف ایک من گھڑت اور زہریلا پروپیگنڈا ہے بلکہ یہ مذکورہ فلم نقل مکانی کرنے والے کشمیری پنڈتوں کی حالت ِزار کی اصل منظر کشی کرنے سے بھی قاصر ہے اور دونوں فرقوں کے درمیان استوار باہمی رشتوں کونفرتوں کے اندھیرے غارمیں دھکیلنے کی کوشش ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کا خیال ہے کہ فلم کا سکرپٹ بھارتی خفیہ ایجنسیز کی طرف سے فراہم کردہ مواد پر مبنی ہے اس لئے اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ کے پی آئی کے مطابق  انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے 1990ء میں عسکری تحریک کا آغاز شوقیہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ ریاستی جبر کی جانب سے ہم پر مسلط کیا گیا تھا۔

اس تحریک کا مقصد انسانیت کو قتل کرنا نہیں تھا بلکہ مسئلہ کشمیر کے فوری حل کی طرف بھارت، پاکستان اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری کی توجہ مبذول کرانا تھا۔انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ میں گرد آلودمسئلہ کشمیر کی فائل سے گرد چھٹنے اور بین الاقوامی برادری کی توجہ مبذول ہونے کے ساتھ ہی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے اعلاناً  ایک بار پھرپُرامن راہوں پر گامزن ہوکر مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے فوری حل کی کوششیں تیز کیں اور ساتھ ہی کشمیر کی تحریک کو پرامن بنانے کیلئے سفر آزادی اور دستخطی مہم جیسے سیاسی پروگرامات چلائے۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی سیاسی قیادت، انسانی حقوق کے علمبردار اور سول سوسائٹی کے بے شمار اہم اور بااثر ممبران سمیت بین الاقوامی برادری بھی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی ان کاوشوں کے معترف ہیں۔محمد رفیق ڈار نے نقل مکانی کے مصائب و مشکلات جھیلنے والے کشمیری پنڈتوں اور بھارت کے اُن انسان دوست افراد کی سراہنا کی جنہوں نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلم کی مخالفت اس بنیاد پر کی کہ یہ فلم بھارتی حکومت کی ایماء پر اور دہلی میں صدیوں سے مقیم اشرافیہ کی مدد سے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے فلمائی گئی ہے۔