تہانوں کی۔۔۔ تحریر محمد اظہر حفیظ


ہمارا قومی پیشہ ہر ایک کے کام میں مداخلت کرنا ہے۔ میں بطور فوٹوگرافر کہیں پر کیمرہ سٹینڈ پر لگائے کھڑا ہوتا ہوں ۔ پہلا راہگیر انکل جی کیا یہ ڈی ایس ایل آر ہے ، دوسرا آجائے گا انکل تصویریں مینول بناتے ہیں یا آٹومیٹک، تیسرا آجائے گا جناب کس سے پوچھ کر تصویر بنا رہے ہیں۔ میں خاموش کھڑا رہتا ہوں۔ او جی کونسے چیننل سے ہیں، ساڈی وی فوٹو بنادیو، ایک چھوٹا سا میرا وی انٹرویو کر لیندے، لینز کیڑا لایا ہویا اے، اچھایہ تو بتائیں نائیکون بہتر ہے یا کینن  ڈی ایس ایل آر تو میرے پاس بھی ہے اس سے اچھا ہے باہر سے بھائی لائے تھے پر میں استعمال نہیں کرتا۔
میں کسی کو جواب نہیں دیتا بس اپنے کام سے کام رکھتا ہوں۔ اگر اجازت دیں تو آپ کے کیمرے ساتھ سیلفی بنا لوں ڈی ہی لگانی ہے، آپ کبھی نادرن ایریا گئے ہیں، یہ لینز کہاں تک فوکس کرتا ہے، کبھی چاند کی تصویر بنائی ہے، فیشن فوٹوگرافی بھی کرتے ہیں، کون کونسی فلمسٹار کی تصویریں بنائی ہیں، حدیقہ کیانی کو جانتے ہیں۔ وہ میری خالہ کی بیٹی ہے، آپ واقعی فوٹوگرافر ہیں بھی یا بس شو شا ہی ہے، آپ اسلام آباد ميں کھڑے ہیں اور اُدھر چنن پیر کا میلہ لگا ہوا ہے ۔ شندور جارہے ہیں جولائی میں ۔ ذرا فریم تو چیک کروائیں کیا بنایا ہے۔ پتہ نہیں اس فارغ قوم کا اور کوئی کام ہے ہی نہیں ہے۔ کیمرہ ہے کتنے کا۔ کیمرے کی انشورنس ہوتی ہے کیا۔ پتہ نہیں کیا کیا سوال کرتے ہیں۔ میرے ماموں بھی فوٹوگرافر ہیں ۔ کئی تو بہت پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ جی فوٹوگرافر اظہر حفیظ ہمارے عزیز ہیں اب میں مڑ کر دیکھنے پر مجبور ہوجاتا ہوں یہ کون ہے۔ پر اب میں کافی ڈھیٹ ہوگیا ہوں۔ مجھے یہ جملے کچھ نہیں کہتے اب تو کئی نئی پارٹیاں آگئی ہیں این او سی ہے آپ کے پاس، مقصد کیا ہے تصویر بنانے کا، موٹروے پر تصویر بنانا منع ہے، یہ ڈبل اشارے بند کرلیں بیٹری ختم ہوجائے گی، ڈرون آپکا اپنا ہے، میرے پاس بھی ہے ، آپ نے کتنے کا لیا ہے ، میں نے بارہ ہزار کا لیا ہے ، بہترین ویڈیو بناتا ہے، یہ کتنی دور تک جاتا ہے اور واپس آجاتا ہے، کتنی دفعہ گرا آپ سے ، تصویر مت بنائیں یہ حرام کام ہے، تصویر میں جان ڈالنی پڑے گی۔ استغفراللہ کیا کر رہے ہیں دین اسکی اجازت نہیں دیتا ۔ بات سنیں شادی بیاہ کا کیا چارج کرتے ہیں، تین دن کا فنکشن ہے، کبھی آپ سے کسی نے کیمرہ چھینا۔ طرح طرح کے بے جا سوال۔
مجھے اردشیر کاؤس جی یاد آگئے۔ 1998 میں انکا انٹرویو کرنے میں اور جاوید چوہدری صاحب کراچی گئے ۔ چوہدری صاحب جب بھی ٹاپک سے ہٹے جیساکہ آپ کا لان بہت خوبصورت ہے آگے سے جواب آتا تھا سالا تیرے باپ کا کیا جاتا ہے، تھوڑی بات چیت چلتی تھی چوہدری صاحب یہ طوطا مکاو ہے کیا۔ سالا تیرے باپ کا کیا جاتا ہے جو بھی ہو۔
سیکھ تو اسی وقت ہی جانا چاہیے تھا کہ جب بھی کوئی فضول سوال کرے تو اس کو شٹ اپ کال دے دینی چاہیے، بندہ جتی لاکے کُٹنا شروع کرے تے گنتی وی نہ کرے بس ایک گل پوچھی جاوے کہ اوئے تہانوں کی۔