قابلِ اعتراض ترقی پسندانہ سرگرمیاں۔۔۔تحریر الطاف حسن قریشی


لیاقت علی خان نوابزادہ ہونے کے باوجود حب الوطنی اور اِیثارکیشی کا پیکر تھے۔ وہ کرنال میں بہت بڑی جائیداد چھوڑ کر آئے تھے، مگر اُنہوں نے کوئی کلیم  داخل نہیں کیا اور یہ پالیسی بیان دیا کہ جب تک ہر حقدار مہاجر کو اُس کا کلیم نہیں مل جاتا، مَیں اپنی زمینوں کے بدلے ریاستِ پاکستان سے کچھ وصول نہیں کروں گا۔ اُن کی درویشی کا راز اُن کی شہادت کے بعد کھلا جب اُن کی شیروانی اتاری گئی تو دیکھا کہ اُن کی قمیض پر جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے ہیں۔ دراصل اُن کے کاندھوں پر پاکستان کی بقا اور اِستحکام کی جو ذمےداری آن پڑی تھی، اُس نے اُنھیں حرص و ہوس سے ماورا اَور عملی فراست سے آشنا کر دیا تھا۔ عین اُس وقت جب خطِ تقسیم کے دونوں طرف خون کے دریا بہہ رہے تھے، اُنہوں نے وزیرِاعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے اقلیتوں کےتحفظ کا معاہدہ کیا جو قتل و غارت گری کے آگے بند باندھنے میں معاون ثابت ہوا، لیکن بھارت نے پاکستان کیساتھ سرحد پر فوج تعینات کر دی تو قائدِملت لیاقت علی خان نے وزیرِاعظم ہاؤس کی بالکونی سے مکا لہراتے ہوئے پُرعزم لہجے میں اعلان کیا تھا کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ اُن کی اِس جرأتِ ایمانی سے بھارتی قیادت پر ہیبت طاری ہو گئی اور فوری طور پر فوجیں ہٹا لی گئی تھیں۔

دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر امریکہ اور سوویت یونین کے بلاک اَپنا اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی ہلاکت خیز دوڑ میں لگے ہوئے تھے۔ پاکستان نے 15؍اگست 1947 کو یومِ آزادی منایا جس میں امریکہ نے بہت بڑے وفد کے ساتھ نیک تمناؤں کا پیغام بھیجا۔ اُس کے برعکس سوویت یونین نے تقریب کا بائیکاٹ کرتے ہوئے یہ دلآزار بیان دیا کہ پاکستان استعماری طاقتوں کی پیداوار ہے جس کا جلد سے جلد خاتمہ ضروری ہے۔ مصورِ پاکستان علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں یہ عظیم حقیقت اجاگر کر دی تھی کہ شمال مغربی ہندوستان میں مسلمانوں کی ریاست کا قیام اشتراکیت کی یلغار رَوکنے میں بہت مؤثر ثابت ہو گا۔ قائدِاعظم بھی اشتراکیت کو اعلیٰ انسانی قدروں کے لیے مہلک سمجھتے تھے، چنانچہ پاکستان کا واضح جھکاؤ آزاد دُنیا کی طرف تھا۔ سوویت یونین نے ابتدائی برسوں میں پاکستان کو تسلیم نہیں کیا، مگر اُس نے وزیرِاعظم پاکستان کو سوویت یونین کے دورے کی دعوت کا ڈرامہ رچایا۔ اُن دنوں راجہ غضنفر علی خان ایران میں پاکستان کے سفیر تھے۔ اُن سے ایران میں سوویت یونین کے سفیر نے سرِراہے بات کی کہ ہم پاکستان کے وزیرِاعظم کو دورے کی دعوت دینا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے اِس پیشکش میں دلچسپی لی، مگر روس کی طرف سے کوئی دعوت نامہ آیا نہ دورے کی ممکنہ تاریخ کا شیڈول دیا گیا۔ دریں اثنا امریکہ نے دورے کا دعوت نامہ بھیج دیا جس نے نوآبادیات کی آزادی میں روز ویلٹ، چرچل معاہدے کے تحت اہم کردار اَدا کیا تھا۔ اُس معاہدے میں طے پایا تھا کہ جنگ کے خاتمے پر نوآبادیات کو حقِ خود اختیاری دینے کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔

پاکستان کے لیے نوابزادہ لیاقت علی خان کا امریکی دورہ گوناگوں اہمیت رکھتا تھا۔ اُس کے پڑوس میں بھارت واقع تھا جس کے جداگانہ وطن کے قیام سے وہ خواب چکناچُور ہو گئے تھے جو اُس کی سیاسی اور عسکری قیادتیں عشروں سے دیکھتی آئی تھیں کہ بھارت اِن تمام علاقوں کا حکمران بنے گا جو برطانیہ کے زیرِنگیں رہے تھے۔ اِن حالات میں پاکستان کو ایک عالمی طاقت کی حمایت درکار تھی۔ وزیرِاعظم لیاقت علی خان بیگم رعنا کے ساتھ امریکی دورے پر روانہ ہوئے۔ قواعدوضوابط کے مطابق اور دَورے کی اہمیت کے پیشِ نظر اُنہیں اپنا پرائیویٹ سیکرٹری بھی ساتھ لے جانا چاہیے تھا، مگر کفایت شعاری کے خیال سے وہ صرف اپنی بیگم کو ہمراہ لے کر گئے جو بڑی باقاعدگی سے پرائیویٹ سیکرٹری کے تمام فرائض سرانجام دیتی رہیں۔ امریکہ میں پاکستان کے وزیرِاعظم کا تاریخی استقبال ہوا۔ اُنہوں نے کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے حکیم الاُمت علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں پاکستان کا آفاقی تصوّر پیش کیا جسے امریکی قوم میں بڑی پذیرائی ملی۔ اُس کا اندازہ مجھے اُس وقت ہوا جب ہم 1986 میں وزیرِاعظم محمد خان جونیجو کے ہمراہ اَمریکہ گئے۔ وزیرِاعظم کا استقبال کرتے ہوئے امریکی صدر رَونلڈ ریگن نے کہا تھا کہ میری قوم کے حافظے میں وزیرِاعظم لیاقت علی خان کا کانگریس میں خطاب آج بھی محفوظ ہے جو آزاد دُنیا کے عظیم آدرشوں کا آئینہ دار تھا۔

امریکی دورے پر 16 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ اِس پر امیر جماعتِ اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کڑی تنقید کی جن کے بعض دوسرے اقدامات بھی اُن دنوں زیرِبحث تھے۔ اُنہی کے عہد میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں جھرلو چلا تھا۔ مزید برآں حسین شہید سہروردی کے ساتھ غیرسیاسی رویّہ اپنایا گیا تھا۔ وزیرِاعظم لیاقت علی خاں غیرمعمولی صلاحیتوں اور بے مثل قربانیوں کے باوصف بہرحال ایک نوابزادہ تھے جو گاہے گاہے اپنی نوابیت کا اظہار کرتے رہتے تھے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیرِاعظم لیاقت علی خان اُن دنوں بھارتی پریس میں ہونے والے غالباً اُس پروپیگنڈے کے دباؤ میں تھے کہ پاکستان میں مولویوں کی حکومت آ گئی ہے جو عورتوں کو گھروں میں بند رَکھے گی، اقلیتوں کی تمام آزادیاں سلب کر ڈالے گی اور ثقافتی سرگرمیوں کا گلا گھونٹ دے گی۔ غالباً اُسی پروپیگنڈے کا اثر زائل کرنے کے لیے خواتین کی تنظیم ’’اپوا‘‘ قائم ہوئی جس کے تحت ثقافتی اور تعلیمی تقریبات منعقد ہونے لگیں اور ہر شعبۂ زندگی میں عورتوں نے حصّہ لینا شروع کر دیا۔ غالباً یہ ثابت کرنے کے لیے کہ پاکستان میں مولویوں کے بجائے آزاد خیال سیاست دان اختیارات کے مالک ہیں، بعض اوقات کچھ زیادہ ہی ترقی پسندانہ سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں جو شائستہ مزاج لوگوں پر شاق گزرنے لگی تھیں۔ اِس کے علاوہ جناب وزیرِاعظم مسلم لیگ کی صدارت پر بھی براجمان ہو گئے جس کے باعث جمہوری حلقوں میں اُن پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ