شکریہ… تحریر ڈاکٹرصغریٰ صدف


محبت، خلوص اور دردمندی کے احساسات کے جواب میں یہ چھوٹا سا لفظ کہنا بہت بھلا نہیں لگتامگر کیا کریں تشکر کے لیے اس سے موزوں لفظ موجود ہی نہیں، تو اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ مجھے پچھلے چھ سات مہینوں سے تھکن، سانس پھولنے اور لتھارجک کا سامنا تھا۔ ایک ایسا انسان جسے زندگی میں نزلہ، بخار جیسی بیماری بھی کم لاحق ہوئی ہو وہ یک لخت تھکنے لگے تو عجیب سی بے بسی اور اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے، دو بار خون کے تمام ٹیسٹ کروائے، سب نارمل، شاید دل دھوکہ دہی پر اتر آیا ہو مگر دھڑکنوں کی آنیاں جانیاں بھی معمول کے مطابق، خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، تھکن اور سانس پھولنے کا سلسلہ بڑھا تو فوگ اوراسموگ کا موسم شروع ہو چکا تھا، سب کچھ جوڑ کر ہوا کی شفافیت کے آلات خریدے مگر نتیجہ تبدیل نہ ہوا کیونکہ امتحان ہی مکمل نہ تھا۔ درد دینے والا مداوا بھی ساتھ بھیجتا ہے، جب ہماری مادی تشخیص ناکام ہو جاتی ہے تو روحانی طاقت وسیلہ بنتی ہے اور معالج تک پہنچاتی ہے۔ میں ایک نیک نام ریسٹورنٹ سے کھانا کھا کر آئی تو گھر آتے ہی قے ہو گئی، انفیکشن بڑھنے لگا، دو تین دن میں حال برا ہو گیا، ڈاکٹر نے تجویز کیا کھانا یعنی اسٹیم فِش اندر سے یا کچی تھی یا باسی، بہرحال عام یرقان ہو گیا ہے۔ کوئی دوا دارو نہیں، جوس اور گلوکوز پئیں دوہفتے میں سب نارمل ہو جائے گا۔ تین ہفتے گزر گئے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ آنتوں میں درد اور بیماری کی شدت بڑھتی گئی۔ گھر والوں نے کئی لوگوں سے مشورہ کیا اور میں پی کے ایل آئی پہنچ گئی جہاں تشخیص کے جدید نظام کو بھی بے شمار ٹیسٹوں کے مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ وہ چھوٹی سی جڑ کہاں تھی جسے تلف کرنا مقصود تھا، میرے وجود کے پور پور میں مشین کی آنکھ اور ڈاکٹروں کی فکرمند بصارت نے تلاش کیا۔ اس دوران میرا ظاہری حسن و جمال مکمل پامال ہو چکا تھا، لمبے قد کو اذیت کی رسیوں نے ٹیڑھا میڑھا کر دیا، خون کی کمی نے سب رنگ چھین لئے، ہاتھ پاؤں میں جنبش کی طاقت نہ رہی، پلیٹ لیٹس خطرناک حد کو عبور کرنے لگے تو ناک، منہ سے خون بہتا دیکھ کر میرے اپنوں کے ہوش اڑ گئے،فنا کا عمل تیزی سے جاری تھا۔ میں نے خود بھی اِرادتا اپنا سامان باندھ لیا اور اگلے سفر کے لئے تیار ہو گئی۔ نصیحتوں، وصیتوں کا مرحلہ مکمل کر لیا مگر ابھی قدرت کو منظور نہیں تھا۔ مسیحاؤں پر بیماری کا راز افشا ہوچکا تھا، مجھے آٹومیمون ہیپاٹائٹس ہوا تھا جس میں انسان کی اپنی قوت مدافعت اسے کھانا شروع کر دیتی ہے۔ جزا و سزا کا نظام بھی اندر ہی محفوظ ہے۔ شعور، احساس، روح کی اذیت کیلئے بھی وسیلہ جسم کو ہی بننا پڑتا ہے۔ جس وجود کو سہارے کی عادت نہ تھی اسے وہیل چیئر پر بیٹھنے کیلئے بھی محتاجی جھیلنی پڑی۔ بے بسی کے ہر مرحلے سے گزار کر مری تطہیر کی گئی۔ میں، انا، مان اور خود کو کچھ سمجھنے کے ہر عمل کی جرمانے سمیت سزا بھگتی، پور پور کو پھرول کر شفاف کیا گیا، ٹکڑے ٹکڑے جسم میں سوئیوں کے چھید نمایاں ہو گئے، جو گردن کبھی جھکتی نہیں تھی اس سے پانی کا ایک گھونٹ نگلنا مشکل ہو گیا تو واپسی کے سفر کاآغاز ہوا۔ جس تیز رفتاری سے سسٹم کولیپس ہوا تھا اس طرح بحالی ممکن نہ تھی۔ آہستہ آہستہ زندگی کے رنگ واپس آنے لگے۔ اس دوران مجھے جس چیز نے تقویت دی وہ رب کی رحمت، ماں اور خونی رشتوں، دوستوں، میرے دفتر کیا سٹاف کے علاوہ ان لوگوں کی دعائیں تھیں جن سے میں کبھی نہیں ملی تھی۔ لفظوں کی وساطت سے وہ مجھے پہچانتے تھے میرے لئے اپنائیت اور فکر مندی ظاہر کر رہے تھے، دعائیں کر رہے تھے۔ جب مجھے ہوش آتی مجھے ویڈیو پیغام دکھائے جاتے، کہیں مکے کی مسجد اور مدینے میں روضہ رسولۖ کے سامنے میرا نام لے کر دعا کی جا رہی ہوتی، کہیں کوئی حضرت زینب کے دربار پر میرا نام لے کر رو رہا ہوتا، مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے میرے خیرخواہ چرچ، گوردوارے اور مندر میں میری اذیت کے خاتمے کے لئے ہاتھ اٹھائے روتے نظر آئے، اگر یہ کہا جائے کہ گلیوں کے تنکوں نے بھی میرے لئے دعا کی تو غلط نہ ہو گا۔ انسان کو یہ رویہ توانا کر دیتا ہے کہ وہ اتنے لوگوں کی دعاؤں کا محور ہے۔ جن کو اس کی ذات چن لیتی ہے ان کی زندگی کے مرحلے ہوتے ہیں۔ آزمائش اور امتحان کے بعد دوسرا مرحلہ مختلف ہوتا ہے۔ میرا پہلا پارٹ بہت لمبا ہو گیا تھا اس لئے مجھے زیادہ اذیت سہنی پڑی۔ برسوں قبل میں نے ایک روحانی نیٹ ورک سے خود کو دور کرنے کے لئے نیند کی گولی کھانی شروع کی۔ حتمی تشخیص میں اسی گولی کے بدلے اجزا نے انفیکشن کا کام کیا اور ایک کڑے امتحان سے گزار کر میری تاریں دوبارہ اس نیٹ ورک سے جوڑ دی گئیں۔ یہ دوسرا جنم اور سفر ہے۔ انسان بظاہر زندہ رہتا ہے مگر اندرونی طور پر نیا جنم لیتا ہے، خدا کرے اس سفر میں ،میں سونپی گئی اضافی ذمہ داریاں نبھا کر سرخرو ہو سکوں۔ آپ سب سلامت رہیں، ایک بار پھر شکریہ۔ مجھے آزمائش میں سے گزار کر میرے وجود کو شفاف کرنے والے اس دنیا پر کرم کر۔

بشکریہ روزنامہ جنگ