مظفرآباد،سری نگر… پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول ( ایل او سی) پر جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عملدرآرمد کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کی فوجی قیادت نے 25 فروری 2021 کوایل او سی پر جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عملدرآرمد کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول ( ایل او سی) پر جنگ بندی معاہدہ نومبر 2003میں طے پایا تھا۔
جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عملدرآرمد کے اعلان پراقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس، امریکہ، برطانیہ اور کئی دیگر ممالک نے جنگ بندی کے معاہدے کی تجدید کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیا تھا۔
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق جنگ بندی کے معاہدے کی تجدید کے اعلان کے فوری بعد یہ خبریں آنے لگی تھیں کہ پاکستان اور بھارت سرحد پر تناؤ کو کم کرنے کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے سفارتی سطح پر کی گئی کوششوں کے نتیجے میں اقدامات اٹھانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔
اگرچہ اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں کا اصرار تھا کہ اس میں کسی تیسرے ملک کا کوئی عمل دخل نہیں رہا ہے ۔ تاہم متحدہ عرب امارات نے معاہدے کی تجدید کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس میں اپنے کردار کا یہ کہہ کر عندیہ دیا تھا کہ اس کے دونوں ممالک کے ساتھ”قریبی تاریخی تعلقات” ہیں جو توجہ سے محروم نہیں رہے۔
تجزیہ کار اور یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ مئی اور جون 2020 میں لداخ اور سکم میں بھارت اور چین کی افواج کے درمیان ہونے والا تصادم ، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال اور فوجی اہمیت کے معاملات کا ایل او سی پر جنگ بندی کے معاہدے کی تجدید کے لیے نئی دہلی کے نزدیک ضرور ایک عنصر رہا ہو۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں چاہتے تھے کہ ایل او سی اور جموں سیالکوٹ سرحد پر آئے دن ہونے والی جھڑپوں پر روک لگ جائے کیوں کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف مقابل افواج جانی و مالی نقصان اٹھا رہی تھی بلکہ عام شہریوں کو اس کا خمیازہ اٹھانا پڑ رہا تھا جو نریندر مودی اور عمران خان کی حکومتوں کے لیے کئی لحاظ سے اچھا نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ”کشمیر کی سرحدوں پر آئے دن گولہ باری اور فائرنگ کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کی حکومتوں کو مقامی، ملکی اور بین الاقوامی سطحوں پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔
اس کے علاوہ سرحدوں پر اس فعال دشمنی پر آنے والا خرچہ دونوں ملکوں کی معیشت کو مزید کمزرو کررہا تھا اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ دونوں ملکوں کے اقتصادی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا نے مزید کہا کہ”دونوں ملکوں کی حکومتیں آپسی تعلقات کو بہتر بنانے اور دو طرفہ مسائل حل کرنے کے لی جامع مذاکرات کو بھی بحال کرلیتی لیکن نئی دہلی اور اسلام آباد میں حکمران جماعتوں کی بعض سیاسی مجبوریاں اور ووٹ سیاست اس ممکنہ عمل میں آڑے آرہی ہیں۔
صحافی اور کالم نگار ارون جوشی کہتے ہیں کہ ”یہ بغیر اعلان کے جنگ تھی جو 24 فروری 2021 کی صبح تک جاری رہی۔”البتہ ارون جوشی کے مطابق “خوشی اس بات کی ہے کہ دونوں ملکوں میں آپسی تعلقات بالخصوص تجارتی روابط کو بحال کرنے کے لیے آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ ایل او سی پر جنگ بندی کوبرقراررہنے کو اعتماد سازی کے اقدام کے طور پردیکھا جاسکتا ہے اور یہ بات کو آگے بڑھانے اورپاکستان اور بھارت کے تعلقات میں ایک مثبت کردار اداکرنے کا موجب بن سکتا ہے۔”