اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں مل کر مفاہمت سے فیصلے کریں،پرویز رشید


اسلام آباد (صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ جو اس وقت تحریک عدم اعتماد لانے کی بات چیت شروع ہوئی ہے وہ بہت واضح ہے کہ وہ مرکز کے بارے میں ہی ساری جماعتیں سوچ بچار سے کام لے رہی ہیں اور ایسی کوئی بات پنجاب کے بارے میں ایجنڈے پر نہیں ۔ابھی تک جو طے ہو ا ہے اور جو رہنمائی نواز شریف کی طرف سے ہمیں ملی ہے وہ یہی ہے کہ ہم عدم اعتماد پر توجہ دیں گے، یہ بات ہم نے دیگر تمام جماعتوں تک بھی پہنچا دی ہے اوراس پر تمام جماعتوں کے درمیان آمادگی ہے اور جب تحریک عدم اعتماد کا مرحلہ مکمل ہو جائے تو پھر مفاہمت کے ساتھ بیٹھ کر آئندہ مرحلوں کے بارے میں فیصلے کئے جا سکتے ہیں۔اپوزیشن کے پاس تعداد اس سے زیادہ ہے جتنی عدم اعتماد کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔

ان خیالات کااظہار پرویز رشید نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی وطن واپسی کا فیصلہ ان کے ڈاکٹرز نے کرنا ہے اورپارٹی نے کرنا ہے، ہم انہیں عزت اوراحترام کے ساتھ لانا چاہتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں کیونکہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے وہ اس کے مستحق نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد میں جب کا میابی ہو جا تی ہے تو اس میں دو مرحلے آتے ہیں ایک مرحلے میں اگرفوراً عام انتخابات کی طرف جاتے ہیں تو پھر آپ کو ایک عبوری سیٹ اپ چاہئے ، یقیناً اس کے لئے آپ کو گفتگو کرنی ہوتی ہے جو بھی عدم اعتماد میں ساتھ دے گا تووہ اگلی بات ضرور پوچھے گا کہ آپ نے فوراََالیکشن کرانے ہیں یا اس سسٹم کو کچھ عرصہ چلنے دینا ہے اور کچھ اصلاحات وغیرہ کرنے کے بعد الیکشن کرائے جائیں گے اور یہ دو نقطہ نظر ہیں،ہماری جماعت کااپنا ایک نقطہ نظر ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کااپنا نقطہ نظر ہے اور یہ سب سے اہم امور ہیںاور جب دونوں پارٹیاں ملتی  ہیں تو اس پر گفتگو کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک ملاقات میاں محمد شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان پہلے ہوئی تھی جس میں انہوں نے کچھ سوالات اٹھائے تھے ان سوالات کے جوابات دینے کے لئے پاکستان مسلم لیگ (ن)کا جو طریقہ کا ر ہے وہ ضروری تھا کہ آپس میں مشورہ کریں اور اپنے قائد میاں محمد نواز شریف سے بھی رہنمائی حاصل کریں وہ عمل مکمل ہوا تو ان سوالات کے جوابات ان کو فراہم کر دئیے جائیں گے اور اگر ان کے کوئی مزید سوالات ہوں گے تو ان کے جوابات بھی ان کو فراہم کر دئیے جائیں گے ۔

پرویز رشید نے کہا کہ یہ عمل کوئی سال یا سواسال قبل شروع ہوا تھا کہ پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں نے ہمارے ساتھ رابطے کرنا شروع کئے تھے اور ان کی خواہش یہ تھی کہ وہ پی ٹی آئی کو چھوڑکر مسلم لیگ (ن)میں شامل ہونا چاہتے ہیں، انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ اگر آپ یہ عمل کریں گے توآپ کو اپنی نشست سے محروم ہونا ہو گا، وہ اس چیز پر بھی تیار تھے اور وہ نشست سے محروم ہونے کے بعد دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے کو بھی تیار ہیں، اس وقت ان سے کہا گیا تھا کہ آپ رک جائیں ہم مناسب وقت پر آپ سے پھر رابطہ کریں گے اور اگر صرف ان لوگوں پر ہی اعتماد کر کے ہی عدم اعتماد کر دیا جائے تو شاید کسی اور کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔

انہوں نے کہا کہ جو حالات اور وا قعات ہوئے ہیں س میں پی ٹی آئی سے اور بھی لوگ دور ہوئے ہیں اور عمران خان کے ساتھ حلیف جماعتوں میں بھی فاصلہ آیا ہے چونکہ نئے انتخابات سر پر ہیں توکوئی بھی عمران خان کا بوجھ اپنے کندھوں پر لاد کر ان انتخابات میں جانے کی خواہش نہیں رکھتا بلکہ عمران خان سے دوری اختیار کر کے اور اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرے چاہتے ہیں کہ وہ انتخابی عمل میں حصہ لیں۔

انہوں نے کہا کہ تعداد اس سے زیادہ ہے جتنی عدم اعتماد کے لئے ضرورت ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ساڑھے تین چار سال میں تحریک انصاف نے ایسی کارکردگی دکھائی ہوتی کہ گلی محلوں ،بازاروں اور مارکیٹس میں ان کی طوطی بول ر ہی ہوتی اور عوام ان کے زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے اور جن لوگوں نے انتخابات لڑنا ہو تا ہے وہ لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور ان لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی جماعت کی حیثیت کیا ہے جو حقیقت ہے وہ انہیں بذات خود مجبور کرے گی کہ وہ اس عمل میں حصہ لیں اور جو نارضگی اور غصہ ان کے بارے میں ہے اس کو ختم کرکے انتخابات میں حصہ لینے کے قابل ہو جائیں۔ہماری اس عدم اعتماد کے بعد بھی یہ کوشش ہو گی کہ پاکستان کی اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں مل کر مفاہمت سے فیصلے کریں ۔