پیکا کومسترد کرنے کے لیے قرارداد سینیٹ میں جمع کرا دی، سینیٹر مشتاق احمد خان


کرک (صباح نیوز) امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ پیکا میں بذریعہ آرڈیننس کی گئی ترامیم دستور پاکستان کی روح کیخلاف، بلیک لائ، آزادی اظہار رائے کاگلا گھوٹنا ہے ریاستی اداروں کو غیر معمولی ماورائے دستور اختیارات دینے سے بڑے پیمانے پر بشری حقوق کی تلفی کاامکان پیدا ہوتا ہے۔ اسکو مسترد کرنے کے لیے قرارداد سینیٹ میں جمع کرا دی  ہے ،اس امت کی ہیروز عورت مارچ کی خواتین نہیں ہیں، اگر کوئی خواتین کے حقوق کی بات کرتا ہے تو خواتین کے حقوق کے علمبردارہم ہیں۔ میں یہاں جلسہ میں بھی (خواتین کے حقوق کی) بات کرتا ہوں، سینیٹ میں بھی کرتا ہوں۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نیڈگر نری ضلع کرک میں ختم بخاری کی تقریب سے خطاب کرتے ہو ئے کیا اس موقع پر  نائب امیر صوبہ مولانا تسلیم اقبال،  امیر ضلع کرک  ظہور خٹک اور دیگر بھی شریک تھے ،سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ اسلام نے خواتین کو مہر اور وراثت کے حقوق دیئے ہیں، جائیداد اور مرضی کے رشتے کا حق دیا ہے خاتون کا رشتہ آیا تو اس کی مرضی پوچھنی معلوم کرنا ہو گی، رسول اللہ نے (اپنی بچیوں سے) پوچھا ہے۔اور سورہ کی بنیاد پر (کسی کو) بچی دینے کی اسلام کسی صورت اجازت نہیں دیتا۔یہ ظلم ہے یہ حقوق (خواتین کو) اسلام نے دیے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ کلچر اور ثقافت کے نام پر کوئی بھی ان کے حقوق نہیں چھین سکتا جوچھیننے کی کوشش کرے گا ہم ان کے مقابلے میں کھڑے ہوں گے اللہ اور اللہ کے رسول نے جو حقوق دئے ہیں وہ کون چھین سکتا ہے اور جو لینے کی کوشش کرے گا، ہم ان کے مقابلے کے لیے کھڑے ہوں گے یہ خواتین کے حقوق ہیں، ان کا تحفظ ہم کریں گے  لیکن خواتین کے حقوق کی آڑ میں اگر کوئی یہ نعرہ لگائے کہ میرا جسم میری مرضی، تو آپ خواتین کے حقوق نہیں بلکہ مغربی تہذیب مسلط کررہے ہیں۔خواتین کے حقوق کی آڑ میں جو لوگ یہ بات کررہے ہیں۔ کہ ٹرانس جینڈر کے حقوق اور اس کے نتیجے میں (بننے والا) ٹرانس جینڈر ایکٹ جس میں مرد کی مرد اور عورت کی عورت سے شادی کو جائز کردیا گیا ہے۔ اس کی بات کررہے ہیں۔ اور جو خواتین کے حقوق کی آڑ میں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دینے کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اور جو خواتین کے حقوق کی آڑ میں یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ہمیں آزادی چاہیے کس سے آزادی چاہتی ہیں؟  کہتی ہیں کہ نعوذباللہ اللہ اور اس کے رسول ۖسے آزادی چاہتی ہمیں ان کے مقابلے میں کھڑا رہوں گا یہ مغرب کا ایجنڈا ہے۔لہٰذا یہ جو عورت مارچ کی خواتین ہیںان کا خواتین کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں۔مغرب فریڈم آف پریس کی بات کرتا ہے۔ فریڈم آف سپیچ کی بات کرتا ہے لیکن فریڈم آف ڈریس کی بات آتی ہے تو چپ ہو جاتے ہیں کہتے ہیں کہ آزادی اظہاررائے اور آزادی صحافت ہے لیکن فریڈم آف ڈریس نہیں ہے، برقعہ نہیں پہن سکتے۔خود کو ننگا کرنے کی اجازت تو ہے لیکن خود کو چھپانے (پردہ کرنے) کی اجازت نہیں ہے۔ برقعہ کے خلاف قانون سازی، عورت مارچ دراصل ایک سوشلسٹ تحریک ہے اوران کا عورتوں کے حقوق کے ساتھ کوئی رشتہ، ناطہ اور تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک سوشلسٹ اسلام دُشمن تحریک ہے۔ جو خواتین کے حقوق کی آڑ میں یہاں چل رہی ہے۔ ہم ان کا راستہ روکیں گے انشاء اللہ، برقعہ ہمارا فخر ہے، نقاب ہمارا فخر ہے، حجاب ہمارا فخر ہے، تکبیر کا نعرہ ہمارا فخر ہے، عقیدہ ختم نبوت ہماری جان ہے، ناموس رسالت ہمارے ایمان اور رسول اللہ سے عشق ومحبت کا مظہر ہے۔ مساجد اور مدارس اسلامی تہذیب کے مراکز ہیں اور علوم نبوت کے نشرگاہیں ہیں، انشاء اللہ ان کی حفاظت کریں گے اور اس میں سب اپنا کردارادا کریں گے۔علماء کرام اپنا کردارادا کریں گے۔ عوام الناس، عام آدمی کا اپنا مقام، کردار اور موورچہ ہے۔ان سے تعاون اور مدد کی درخواست کرتے ہیں۔  اس تعاون اور مدد سے وہ (عوام) اپناکردارادا کریں گے انشاء اللہ ہماری یہ تحریک جاری رہے گی۔ کیمونزم ختم ہوچکا ہے امت مسلمہ کے حکمران آج سلطان ٹیپو کی ریاست میسور (کرناٹک) میں مسلمان بچی مسکان سمیت دیگر بچیوں کو پردے سے روکنے کے بھارتی عمل پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ مسلم حکمران مغربی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں۔ ٹرانس جینڈرز حقوق بل خاندانی نظام کو تباہ کرنے، مرد کی مرد اور عورت کی عورت سے شادی کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے۔ اس بل سے مسلمان خواتین کا تقدس پامال ہوگا۔ انسداد جبری تبدیلی مذہب کی مخالفت دلیل سے کی ہے۔ اسلام کسی جبر یا جبری طور پر اسلام قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام قبول کرنے کے لئے عمر کی شرط رکھنا غلط ہے۔ وقف پراپرٹی بل مساجد و مدارس کے خلاف ہے۔ قرآن و سنت سے تعلق مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک قرآن و سنت سے مضبوط تعلق اور قرآن و سنت کو سمجھنے والوں کو اقتدار کی مسند پر نہیں بٹھاتے، امت محکوم رہے گی۔ دین اسلام کے قیام کی جدوجہد جہاد کبیر ہے۔ ہر شخص کو اپنی حدود کے اندر اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرنی ہوگی۔

سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم میں چھ کروڑ انسانوں کو قتل کرنے والے آج اپنے مفاد اور امت مسلمہ کے خلاف متحد ہو چکے ہیں لیکن امت فرقوں، مسالک، ذاتوں اور قبیلوں میں بٹی ہوئی ہے۔ امت مسلمہ کو بھی اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے۔ جب تک متحد نہیں ہوتے کسی پر بھی غلبہ حاصل نہیں کرسکتے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے مغرب کی ایماء پر مدارس اور مساجد کو نشانے پر لے رکھا ہے۔مدارس اسلامی تہذیب کے مراکز اور ہمارے دفاعی قلعے ہیں۔ مدارس کے خلاف دشمنوں کے عزائم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کا مقصد پاکستان کو اسلامی اور فلاحی ریاست بنانا ہے۔ اس کے لئے ہر ممکن کوشش اور جدجہد جاری رکھیں گے۔