افکارِ تازہ کا لوہڑی تہوار…ڈاکٹر صغرا صدف


پنجاب تخلیق ،تعمیر اور جدت سے محبت کرنے والے افراد کی سرزمین ہے ، جس کی فضاؤں کے مزاج پر رنگوں اور خوشبوئوں کی بہار جوبن پہ رہتی ہے ،پنجاب باسیوں کا من روحانی اور رومانی کیفیت کی علم بردار ڈھول کی تھاپ پر جھومنے کے لیے بے قرار رہتا ہے اس لیے وہ خوشی اور جشن کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔پنجاب کے تمام میلے ٹھیلے اور تہوار عموما فصلوں کی کٹائی یا دوسرے معنوں میں پنجاب کی زمین سے سونا چننے کی خوشی میں منائے جاتے ہیں۔لوہڑی ایک قدیم تہوار ہے جو جما دینے والی خنکی کی چادر سے نکل کر بدلتی رت کو خوش آمدید کہنے کا نام ہے ،کیونکہ 13جنوری کے بعد دن بڑے ہونا شروع ہو جاتے ہیں تو اس تبدیلی کی مناسبت سے یہ جشن منایا جاتا ہے۔سوچئے صدیوں پہلے جب دن رات کی لمبائی ماپنے والے پیمانے ایجاد نہیں ہوئے تھے ، یہاں کے لوگوں کی فراست نے رات کی تاریکی گھٹنے اور دن کی لو یعنی روشنی کا دورانیہ بڑھ جانے کا ادراک کر لیا تھا۔ گنے کی کٹائی سے جڑے تہوار کے لئے دن 13 جنوری کا دن منتخب کیا گیا جو بذاتِ خود ایک تبدیلی کی رت کی شروعات ہے۔کیونکہ یہ زمین سے جڑا ہوا تہوار ہے اس لئے برصغیر کی بڑی قوموں ہندو ، مسلم ،سکھ کے ساتھ ساتھ سب اس کی محبت میں بندھتے چلے گئے اور یہ تہوار پنجاب سے نکل کر پورے برصغیر میں پھیلتا گیا۔پرانے زمانے کے تمام جشن آگ کا الاؤ جلا کر منائے جاتے تھے،جو روشنی اور حرارت کی شکل ہے۔

پنجابی مہینے پوہ کی آخری رات لکڑیوں کا الاؤ جلایا جاتا ، لوہڑی کی سوغات کے طور پر سب گھروں سے جو کھانے کی چیزیں جمع ہوتیں انھیں ایک بڑی دیگچی میں ڈال کر الاؤ پر پکانے کے لئے رکھ دیا جاتا،ساری رات جو پکوان پکتا رہتا وہ اگلے مہینہ شروع ہو جانے والی صبح کھایا جاتا ، اس لئے کہا جاتا’پوہ رِدھی،مانہہ کھاہدی‘یعنی پوہ میں پکائی اور ماگ میں کھائی۔ میٹھی چیزیں گنے کے رس اور چاول کی کھیر، گڑ، گجک کھائی جاتی۔اس تہوار سے پنجاب کی روشن خیالی اور عورت کے اختیار کی کہانی بھی جڑی ہوئی ہے۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کی مرضی اور پسند کتنی اہمیت رکھتی تھی،’نی میں وَر لینا تے لینا اَڈ?ی مار کے۔‘کیونکہ اس تقریب میں نوجوان لڑکے لڑکیاں رات بھر بھنگڑا ڈالتے اور گیت گاتے تھے تو اسی محفل میں شریک حیات منتخب کرنے کی رسم بھی ادا ہوتی تھی۔الائو کے قریب گنے کا گٹھا رکھ دیا جاتا تھا،لڑکا اس میں سے ایک گنا نکال کر اپنی من پسند لڑکی کو پیش کرتا، اگر وہ آدھا گنا توڑ کر واپس کرتی اور آدھا خود رکھ لیتی تو اس کا مطلب ہوتا کہ اس نے پرپوزل قبول کر لیا ہے ، دوسری صورت میں وہ گنا الاؤ میں پھینک دیتی تھی ،جس کا مطلب اس نے انکار کر دیا ہے۔اکبر کے زمانے میں جب پنجاب کے بہادر سپوت دلا بھٹی نے اکبر کے سپاہیوں سے اغوا کی گئی دو نوجوان ہندو لڑکیوں کو چھڑوا کر ان کی شادی کی تو پھر لوھڑی کے گیتوں میں دلے بھٹی کی شان میں گیت شامل ہو گئے اور یہ تہوار دلے بھٹی کے نام سے مشہور ہوا۔اسی تناظرمیںدو روزہ تھنک فیسٹ کا ہر سیشن منفرد تھا، گفتگو آزادانہ سوچ کے دروازوں پر دستک دے کر ارد گرد کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور سمجھنے کی ترغیب دیتی محسوس ہوئی۔ اس میں کوئی مشاعرہ ،سنگیت ،قوالی اور ہلا گلا نہیں تھا بلکہ سنجیدگی سے اپنی کوتاہیوں ، بڑھکوں اور صلاحیتوں کا جائزہ لیا گیا، مقصد سیاسی ، سماجی ،ثقافتی اور مذہبی معاملات کے الجھے دھاگے سنوارنا اور بطور قوم بہتری کی جانب آغاز کرنے کی صلاح تھی،اپنی نوعیت کا واحد اور منفرد افکارِ تازہ بکھیرتا میلہ ڈاکٹر یعقوب بنگش کی ترقی پسند اور خیر پر مبنی سوچ کا آئینہ دار ہے، جس میں انسانیت کی علمبردار سعیدہ دیپ نے لوھڑی کا عمدہ اہتمام کرکے خوشی کی ایک نئی روح پھونک دی۔

یہ شروعات بہت حوصلہ افزا اور مثبت ہے۔ پنجاب اپنے اصل ہیرو کی پہچان کا سفر شروع کر چکا ہے جو روشن خیال ، انسانی قدروں کا پرچارک اور صوفیانہ سوچ کا حامل ہے۔الحمرا کے وسیع لان میں چاروں طرف کرسیوں پر عورتیں ،مرد ،لڑکے لڑکیاں بیٹھے تھے ، نوجوان گلوکاروں کے لوک گیتوں سے فضا چہک رہی تھی، ڈاکٹر ظہیر وٹو نے بہت خوبصورت انداز میں لوھڑی سے جڑی روایات بیان کیں، دیپ ، یوسف پنجابی، افضل ساحر ، راقم اور بابا نجمی نے لوہڑی کے تہوار کو خوش آمدید کہا۔وہ لمحہ کس قدر سحرانگیز تھا جب بابا نجمی اور راقم نے الاؤ کو آگ دکھا کر رسمی افتتاح کیا تو یک دم ڈھول کی تھاپ پر ارد گرد بیٹھے لوگ دائرے میں بھنگڑا ڈالنے لگے، بہت ہی خوبصورت سماں تھا ،خوشی جھوم رہی تھی ، آنکھوں میں الائو کا عکس محورقص تھا، یہ میلے انسانوں کے ایک دوسرے سے رابطے اور محبت کے عکاس ہیں، بہت سے لوگوں کو ملنے، دیکھنے اور سننے کا موقع ملتا ہے۔ڈاکٹر بنگش جیسے لوگ سلامت رہیں جو فکر کو مغالطوں کی کثافت سے نجات حاصل کرکے لطافت کی سمت سفر کا وسیلہ بنتے ہیں، ذات کو شادمانی اور خیر سے جوڑ کر دنیا کو خوبصورت بنانے میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ