مذاکرات کی کامیابی کیلئے شرط…انصار عباسی


شہباز شریف حکومت نے تحریک انصاف سے مذاکرات کیلئےحکومتی اتحاد کے اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ یہ بہت مثبت اقدام ہے اور اب امید کی جا سکتی ہے کہ تحریک انصاف کو ایک موقع ملے گا کہ وہ اپنے ماضی بالخصوص گزشتہ دو ڈھائی سال کے الزامات، انتشار، جلائو گھیرائو ، فوج سے ٹکرائو، ملکی معیشت پر حملوں کی منفی سیاست کو خیرباد کہہ کر اپنے لیے پولیٹکل اسپیس پیدا کرے ۔ اس منفی سیاست نے سب سے بڑا نقصان خود تحریک انصاف کا ہی کیا اور عمران خان کیلئے مشکلات میں اضافے کا باعث بنی۔ تحریک انصاف کی بدقسمتی رہی کہ عمران خان اپنی پارٹی اور اپنے اردگرد موجود ایسے افراد کی بات سنتے رہے جنہوںنے اُن کو اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ فوج سے بھی لڑوا دیا، الزامات، جھوٹے پروپیگنڈے اور گالم گلوچ کے کلچر کو پارٹی میں تقویت دی اور بعض ایسے بھی اقدامات کیے گئے جو پاکستان کے مفاد میں نہ تھے۔ اس میں عمران خان کا قصور اس لیے زیادہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی پارٹی کے سمجھدار رہنمائوں کی بجائے جذباتی، جھوٹے اور شرارتی لوگوں کی بات زیادہ سنی اور اب پارٹی اس حال تک پہنچ چکی کہ ہر قسم کا احتجاج کر کے دیکھ لیا، 9 مئی بھی کر لیا، قومی معیشت کو نقصان پہنچانے کاکوئی موقع نہ چھوڑا، فوج اور فوجی قیادت کے خلاف ہر قسم کا پروپیگنڈا بھی کیا اور اب اپنے سیاسی مخالفین (جن کے ساتھ ماضی میں ہاتھ ملانا تک گوارا نہ کیا اُنہیں چور ڈاکو کے طعنے دیتے رہے) کے ساتھ مذاکرات کیلئےمنتیں ترلے کرنے پڑے۔ لیکن چلیں دیر آید درست آید۔ آخر کار عمران خان نے اپنے ایسے پارٹی رہنمائوں کی بات سن لی جو اپنے سیاسی مخالفین سے بات کرنے اور سیاست کو دشمنی میں بدلنے کے خلاف تھے اور اب حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کیلئے دونوں اطراف نے مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ مجھے ویسے اب بھی ڈر ہے کہ عمران خان پھر سے کوئی ایسا کام نہ کر دیں جس سے یہ سلسلہ رک جائے۔ خان صاحب پوری کوشش کر تے رہے اور اُنہوں نے ہر حربہ بھی استعمال کر لیا کہ کسی طرح فوج سے اُن کی بات چیت ہو جائے۔ اس کوشش میں فوج اور فوجی قیادت کو دبائو میں لانے کیلئے اُن کے خلاف ہر قسم کا پروپیگنڈا بھی کیا گیا لیکن فوج نے اُن سے بات چیت کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ بات کرنی ہے تو سیاسی جماعتوں کے ساتھ کریں۔ اگر ان مذاکرات کو کامیاب ہونا ہے اور اس سے تحریک انصاف نے اپنی سیاست کیلئے کوئی آسانیاں پیدا کرنی ہیں تو پھر عمران خان کو اپنے ٹیوٹر(ایکس) اکائونٹ کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کے سوشل میڈیا کو الزامات، جھوٹ، انتشار اور ٹکرائو سے روکنا پڑے گا۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ عمران خان کی اصل لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ حکومتی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کریں اور ساتھ ساتھ فوج کو ماضی کے طرح سوشل میڈیا اور اپنے بیانات کے ذریعے نشانہ بھی بناتے رہیں۔ مذاکرات کا جوبھی نتیجہ نکلے گا اور تحریک انصاف اور عمران خان کو اگر کوئی رعایت ملے گی تواس میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی ضرور شامل ہو گی۔اس لیے ضروری ہےکہ عمران خان اور تحریک انصاف ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے، اپنی سیاست کے مستقبل کیلئے رستہ ہموار کریں۔ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں موجودہ نظام میں کوئی بڑی تبدیلی آ جائے گی، عمران خان جیل سے نکل کر اقتدار کی کرسی پر آ بیٹھیں گے تو ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ سب سے اہم چیلنج اب بھی عمران خان کیلئے یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے سیاسی مخالفین اور اسٹیبلشمنٹ کااعتماد حاصل کریں۔ اس وقت نہ اسٹیبلشمنٹ اور نہ ہی اُن کے سیاسی مخالفین کو اُن پرذرہ برابر بھی اعتماد ہے۔ اس اعتماد کو حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پارٹی کے انتشاری ٹولے سے جان چھڑائی جائے اور پی ٹی آئی میں ایسے لوگوں کی بات کو سنا جائے جو سیاسی تدبراور قومی سوچ کے مالک ہیں اور جو جھوٹ، الزامات اور گالم گلوچ کی سیاست سے پارٹی کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ