پاکستان میں حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات سے متعلق امکانات اور تحفظات پیچیدہ اور کثیر جہتی ہیں بادی النظر میں حکومت مذاکرات میں انتہائی سنجیدہ نظر آتی ھے جس کا اندازہ وزیراعظم پاکستان جناب محمد شہباز شریف کی جانب سے حکومتی کمیٹی کی تشکیل سے ھوتی ھے جو درج ذیل افراد پر مشتمل ھے نائب وزیراعظم جناب اسحاق ڈار پرویز اشرف سابق وزیراعظم،رانا ثنا اللہ،سینیٹر عرفان صدیقی،نوید قمر،خالد مقبول صدیقی،علیم خان،چوھدری سالک حسین پر مشتمل ھے اس کمیٹی میں پاکستان مسلم لیگ ن ،پاکستان پیپلز پارٹی،متحدہ قومی موومنٹ،مسلم لیگ ق اور تحریک استحکام شامل ھیں۔
حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات اس وقت ھوتے ھیں جب حکومت مشکلات کا شکار ھو اور اپوزیشن کا پلہ بھاری ھو لیکن اس وقت مذاکرات کا ڈول ایسے وقت ڈالا جا رھا ھے جب حکومت کی رٹ اسٹیبلش ھو چکی ھے اور تحریک انصاف اپنی سیٹی گم کر چکی ھے۔ اس وقت مذاکرات کی حکومت کو نہیں بلکہ اپوزیشن (تحریک انصاف) کو ضرورت ھے لیکن حکومت نے اپنی قومی ذمہ داری کا بھرپور ادراک کرتے ھوئے سنئیر اراکین پارلیمنٹ پر مذاکراتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ھے جو اسکی سنجیدگی کی مظہر ھے۔تحریک انصاف کی قیادت کے پے درپے غلط اور ملک دشمنی پر مبنی فیصلوں نے تحریک انصاف کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ھے کہ اس وقت مذاکرات کے بجائے اٹھائے گئے غلط فیصلوں پر مکافات عمل کا سامنا کر رھی ھے۔ حال ھی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد 9 مئی کے واقعات پر ملٹری کورٹس کے فیصلے آنے شروع ھو گئے ھیں اور 25 کارکنوں کو سزائیں سنائی جاچکی ھیں اور بقیہ کے فیصلے بھی پراسس میں لگے ھوئے ھیں۔ملٹری کورٹس نے بیس کے قریب کارکنوں کو ابتدائی تفتیش کے بعد باعزت رھا کردیا تھا۔190 ملین پونڈ کے مقدمے کا فیصلہ بھی پائپ لائن میں ھے۔ قبل از وقت یہ کہنا یا کوئی پیشن گوئی کرنا کہ اس مقدمہ کا فیصلہ کیا ھوگا مناسب نہیں ھے لیکن مقدمہ کے جو فیکٹس اور شواہد ھمارے سامنے ھیں انکی بنیاد پر یہ کہنا کہ عمران خان اور انکی اھلیہ کا اس مقدمہ میں بچنا مشکل نظر آرھا ھے اور ساتھ ھی 9 مئی کے مقدمات بھی پی ٹی آئی کی قیادت کے سر پر منڈلا رھے ھیں۔
اطراف و اکناف سے یہ اطلاعات بھی موصول ھو رھی ھیں کہ جنرل فیض حمید پر لگائی گئی چارج شیٹ کے تانے بانے بھی پی ٹی ائی کی قیادت کے گرد گھوم رھے ھیں ایسے حالات میں مذاکرات کی حکومت کو چنداں ضرورت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت اور حکومت مذاکرات سے انکاری ھے نہ فراری بلکہ انہوں نے بڑی خوش دلی سے ھمیشہ سیاسی معاملات،مطالبات و اختلافات کو بات چیت کے ذریعے اسکا حل تلاش کرنے پر زور دیا ھے۔ اس وقت بھی وہ مذاکرات سے انکاری نہیں ھیں بلکہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی تجویز پر وزیراعظم پاکستان جناب محمد شہباز شریف نےاس معاملے میں مطلوبہ پیش رفت کر تے ھوئے سپیکر کی تجویز کو سراھتے ھوئے کمیٹی تشکیل دے دی ھے تاکہ مذاکرات کا عمل پارلیمنٹ کے زریعے شروع ھو۔حکومت صرف یہ گارنٹی چاھتی تھی کہ مجوزہ مذاکرات کے فیصلوں کو تسلیم بھی کیا جائے گا نہ کہ انہیں بھی U Turn کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا کیونکہ تحریک انصاف کا ٹریک ریکارڈ ایسا ھے کہ جب بھی انہیں موقع ملتا ھے وہ دھواں مار جاتے ھیں۔ حکومت وقت ھو، یا ماضی کی مسلم لیگ کی حکومتیں ھوں انہوں نے ھمیشہ انہیں مذاکرات پر لانے کی کوششیں کیں حال ھی میں 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر حکومت نے تحریک انصاف کو سنہری موقع دیا تھا کہ آئیں وہ اپنی ترامیم پیش کریں ھم انہیں بھی ان ترامیم کا حصہ بنا سکتے ھیں انہوں نے جو ترامیم دیں انہیں بھی قبول کیا گیا لیکن تحریک انصاف نے تعاون کے بجائے فرار اور مخالفت کا راستہ اپنایا اور 24 نومبر کی کال دے دی اس کال سے پہلے بھی حکومت نے مذاکرات کی متعدد پیشکشیں کیں لیکن تحریک انصاف انقلاب کے گھوڑے پر سوار اسلحہ، پٹرول بموں، tear gas شیلوں اور غلیلوں سے لیس اسلام آباد فتح کرنے کے لئے حملہ آور ھو گئی اور بالآخر پولیس کے ردعمل پر وہ بھاگتے نظر نہ آئے اور اپنی خاتون اول کو بھی اکیلا چھوڑ کر تتر بتر ھو گئے اور انکی قائد کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی آمین گنڈاپور نے ریسکیو کیا۔
اس وقت ان مذاکرات کےامکانات مفاہمت اور تعاون کی کیا صورت حال ھے۔ ایک کامیاب مکالمہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت اور تعاون کا باعث بن سکتا ہے، جس سے سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی ھے۔ان مذاکرات میں انتخابی اصلاحات پر بات کی جا سکتی ہے، جو پاکستان کے جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے مقررہ وقت پر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا باعث بن سکتے ہیں۔احتساب اور حکمرانی کے موضوعات پر بات ہوسکتی ہے، جو ممکنہ طور پر حکومت کے اندر شفافیت اور جوابدہی کو بہتر بنانے کا باعث ھو جہاں تک تحفظات کا معاملہ ھے سب سے بڑا تحفظ ٹرسٹ ڈیفیسیٹ ھے۔حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان اعتماد کا فقدان بطور اہم عنصر موجود ہے، جس سے بامعنی پیش رفت حاصل کرنا مشکل ہے۔دونوں فریقوں کے مختلف مفادات ہیں، حکومت آئین و قانون اور اداروں کی پاسداری پر یقین رکھتی ھے جبکہ تحریک انصاف کی ترجیح صرف اور گرفتار شدگان کی رھائی اور مینڈیٹ کی واپسی کی دعوے دار ھے جو بات چیت کے عمل میں رکاوٹ بن سکتے ہیں اور مشترکہ بنیاد تلاش کرنے میں رکاوٹیں پیدا کر سکتے ہیں۔ بیرونی عوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تحریک انصاف جس طرح کا دباؤ ڈالنا یا ڈالوانا چاھتی ھے وہ حکومت کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرے گی جیسے بین الاقوامی دباؤ یا اقتصادی رکاوٹیں، باھر سے آنیوالے زرائع زر مبادلہ میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرنے پر بات چیت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور حکومت کی سمجھوتہ کرنے کی رضامندی کو مزید محدود کر سکتے ہیں۔بالآخر، حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کی کامیابی کا انحصار دونوں جماعتوں کی تعمیری بات چیت اور باہمی طور پر قابل قبول حل تلاش کرنے کی خواہش پر ہے۔ اس کے لئے تحریک انصاف کو قبل ازیں شرائط عائد کرنے اور مشروط مذاکرات سے پیچھے ھٹنا ھوگا۔ عدالی عمل اس میں رکاوٹ نہیں ھونا چاھیے چونکہ عدالتی پراسس اپنے شیڈول کے مطابق جاری رھے گا۔
جہاں تک ملٹری اسٹبلشمنٹ کا تعلق ھے انہوں نے ھمیشہ مفاھمانہ رویہ اپنایا اور تحریک انصاف کی طرف سے مسلسل انکے ساتھ مذاکرات کے مطالبہ کا یہی جواب دیا کہ سیاسی جماعتیں حکومت وقت یا دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کریں یا مفاھمت کریں ھمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ھے ھم کسی کے ساتھ فریق مخالف ھیں نہ فریق حمایت، ھمیں اپنی پروفیشنل مصروفیت اور قومی ذمہ داریوں سے ھی فرصت نہیں ھے البتہ انکا یہ سادہ سا اور م نی بر حقیقت مطالبہ رھا ھے اور اب بھی ھے کہ جنہوں نے ملک کی سالمیت اور عسکری تنصیبات اور اداروں پر حملے کئے ھیں وہ 9 مئی کے واقعہ پر قوم سے معافی مانگیں اور ان لوگوں سے لا تعلقی کا اعلان کریں جو اس میں ملوث پائے گئے ھوں لیکن اسکا کیا جائے کہ ان 9 مئی کے واقعات میں صاحب موصوف بانی پی ٹی آئی خود ملوث نظر آرھے ھیں اور اس وقت بھی مذاکرات پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کے نکتہ پر نہیں بلکہ دو شرائط پر کرنے کی خواھش پر مبنی ھیں کہ عمران خان کو چھوڑا جائے، حکومت انکو دی جائے اور جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ جہاں تک جوڈیشل کمیشن کی بات ھے مذاکرات میں اس پر بات ھوسکتی ھے لیکن اس کے دائرہ کار اور TORs کی موڈیلیٹیز طے کرنے کے لئے بھی ایک وقت اور ایک فورم درکار ھوگا جو یہ فیصلہ کرے گا صرف ان دو نکات پر حکومت کو کیا عجلت پڑی ھے کہ وہ عمران خان کی شرائط کو پورا کرے کہ اتوار سے پہلے پہلے مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کرے اور ان مذاکرات کا نتیجہ جو نکلنا ھے وہ سب کو سامنے نظر آتا ھے اور ان میں بھی صاحب موصوف کی ضد یہ ھے کہ اتوار سے پہلے پہلے اسکا فیصلہ کیا جائے کہ 190 ملین پونڈ کا فیصلہ آنے اور فیض حمید پر چارج شیٹ عدالت میں پیش ثابت ھونے سے قبل انکی غیر مشروط رھائی دی جائے تاکہ انہیں کلین چٹ مل جائے اور وہ پھر سے سول نا فرمانی کی تحریک شروع کرسکیں۔
حکومت عدالتی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ رکھتی ھے نہ اس پر یقین رکھتی ھے کہ عدالتوں کو زیر دباؤ رکھ کر اپنے مخالفین کے خلاف فیصلے کئے جائیں جسطرح تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں یہ مثال قائم کی تھی۔
تحریک انصاف کے لئے اس وقت بہتر یہی ھے کہ وہ سب سے پہلے 9 مئی کو واقعات میں ملوث افراد سے لا تعلقی کا اعلان کرے اور قوم سے رضاکارانہ طور پر معافی مانگے کہیں ایسا نہ ھو کہ عدالتوں کو نہ صرف انفرادی حملہ آوروں کے ساتھ ساتھ 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور ماسٹرز مائینڈ سمیت سب کو کیفر کردار تک پہنچانا پڑے جسکا اظہار ISPR نے کیا ھے۔ تحریک انصاف حکومت کے سیاسی منڈیٹ کو تسلیم کرے اور اپنے مطالبات اور انتخابی عزرداریوں پر اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف حاصل کریں اور حکومت سے مستقبل کی شفاف انتخابی اصلاحات اور معاشی استحکام پر کھلے دل سے مذاکرات کرے تاکہ یہ ملک آگے بڑھ سکے ملک کو استحکام حاصل رھا تو آج جو حکمران ھیں کل وہ اپوزیشن بنچوں پر ھونگے اور عوام جنہیں آزادانہ منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب کریں گے وہ حکمران ھونگے ان میں تحریک انصاف بھی ھوسکتی ھے یا جسے عوام مینڈیٹ دیں۔ ریاست اپنے تین بنیادی ستونوں پر کھڑی ھو اور سب ادارے ایک دوسرے کے متوازی اور متحارب ھونے کے بجائے ایک مثلث کے طور پر یکجان ھوں نہ فوج سیاست میں مداخلت کرے اور نہ سیاست کے علمبردار اپنی فوج کی کردار کشی کریں اور ان پر حملہ آور ھوں یہی پر امن بقائے باھمی کا اصول بھی اور تحریک انصاف اپنے خود ساختہ نام کے ساتھ بھی انصاف کرے۔
Load/Hide Comments