منزہ جاوید سے جڑی یادیں… تحریر شکور طاہر


عجب لین ڈوری بندھی ہے، ایک کے پیچھے ایک چلا جا رہا ہے۔ سال بھر پہلے ایم زیڈ سُہیل رُخصت ہُوئے، پھر حبیبُ اللہ فارُوقی چلے گئے، پھر ضیائُ الدّین بٹ، پھر رفیق گورایہ، امریکہ میں مُقیم کوکب چغتائی اور قیصر عباس، پھر کپتان سُلطان محمُود، اور اب مُنزّہ جاوید بھی چل بسیں۔ دستِ اجل تو گُلچیں بنا ہے کہ چمنِ ارضی کے مہکتے گُلاب اُچک لیتا ہے۔ جنّت میں پھولوں کی کمی ہے کیا، جو اِس دھرتی سے پھُول چُنے جا رہے ہیں تاکہ خُلد میں گُلدستے سجانے کا سامان ہو۔
1981 میں جب نوخیز صحافیوں کے ایک گرُوپ نے پاکستان ٹیلیویژن کے شُعبہ خبر میں شمُولیت اختیار کی تو میں، اپنی اہلیہ کے ساتھ، سعُودی عرب میں تھا۔ ہم ستمبر میں وطن واپس آئے تو ان لوگوں سے میری پہلی مُلاقات ہُوئی۔ اس گرُوپ میں ایک لڑکا، اور چند لڑکیاں اپنی صحافتی اُٹھان کے لحاظ سے نُمایاں تھیں۔ لڑکا تھا مُزمّل احمد خان، اور لڑکیاں تھیں: مُنزّہ، کوکب چغتائی اور شاذیہ سکندر۔ نیُوز روم میں اِن اُبھرتے ہُوئے صحافیوں کی آمد تازہ ہوا کا جھونکا تھا، عطر بیز نسیمِ سحری کا جھونکا۔ تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دِل کی آمد سے نیُوز رُوم کے ماحول میں یک دَم تازگی آ گئی جیسے جیٹھ ہاڑ کی جھُلسا دینے والی گرمی کے بعد ساون کی برکھا سے حبس ختم ہو جائے اور زمین سبزے کی چادر اوڑھ لے۔
یہ لڑکا اور تینوں لڑکیاں اُس ساز و سامان سے آراستہ تھیں جو صحافت کی پُرخار وادی میں لمبے سفر کے لئے درکار تھا: ایم اے (صحافت) کی ڈگری، ذہن کی لوح پہ فاضل اساتذہ کی علمی صحبتوں کے فیضان کا عکس، پیشانی پہ ادب کے مُطالعے کی تابانی، چہروں پہ افکارِ نو کی دمک، آنکھوں میں ذہانت کی چمک، کارگاہِ حیات میں کُچھ کر گُزرنے کا عزم، اور ہاتھوں میں شاخِ گُل سے تراشے قلم۔
مُصلحُ الدّین مرحُوم نے پنجاب اور کراچی کی جامعات سے ایم اے (صحافت) کی سَنَدِ فضیلت لینے والوں کے اِس گرُوپ کا انتخاب کیا تھا، اور یہ حُسنِ انتخاب قابلِ داد تھا۔ ایسے تجربہ کار جوہری کا انتخاب جو پہلی نِگاہ میں ہی نگینہ پہچان لیتا اور اُس کی آب پرکھ لیتا ہے۔ پھر حبیبُ اللہ فارُوقی اور رضی احمد رضوی کی رہنُمائی اور حُسنِ تربیت سے اِن نگینوں کی تراش خراش ہُوئی اور ان کی آب و تاب کو نکھار ملا۔ رضی احمد رضوی نے اُنہیں انگریزی زبان میں خبر ڈرافٹ کرنے کا ہُنر سکھایا، حبیبُ اللہ فارُوقی نے اُنہیں خبروں کے اُردُو میں ترجمے کی روایت سے شناسا کیا، ادارت سکھائی اور بصری مواد کی تدوین کے اُصُول سمجھائے، معصُوم عُثمانی نے اُنہیں پروڈکشن کے مُختلف پہلُوؤں اور باریکیوں سے آشنا کیا، اور پرویز بھٹی نے اُنہیں خَبَرنامے کی ترتیب و تشکیل میں بھرپُور شرکت کا موقع دیا۔ ان چاروں نے، اپنی اپنی استعداد کے مُطابق، مُمتاز حمید راؤ اور دُوسرے سینیئر ساتھیوں سے بھی کسبِ فیض کیا۔
اِن نوخیز قلم کاروں میں سیکھنے کا بے پناہ جذبہ تھا۔ اُنہوں نے نہایت دلجمعی کے ساتھ برقیاتی صحافت کے طور طریقے اور اسرار و رموز سیکھنا شرُوع کئے اور وہ چند ہفتوں میں ہی اِس فنِ لطیف کے ہر شُعبے میں طاق ہو گئے۔
یُوں تو ان چاروں نے، جنہیں پی ٹی وی نیُوز کی اُبھرتی ہُوئی ٹیم کے عناصرِ اربعہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو، بہت جلد الیکٹرانک جرنلزم کے ہر ذیلی شُعبے پہ دسترس حاصل کر لی، تاہم ان میں سے ہر ایک نے اپنے لئے تخصّص کا الگ الگ باب چُنا۔ شاذیہ سکندر نے بہت جلد آن کیمرا رپورٹنگ میں اپنی مہارتِ فن کے نقُوش ثبت کئے، کوکب چغتائی نے خُود کو انگریزی ڈیسک کے لئے وقف کر دیا، مُزمّل احمد خان نے گاہے ماہے بُلیٹن پروڈیوس کرنے کے ساتھ ساتھ اُردُو اور انگریزی میں رپورٹنگ کی نئی راہیں تلاش کیں، اور مُنزّہ نے نیوز پروڈکشن میں مہارت حاصل کی اور انگریزی ڈیسک کے علاوہ خَبَرنامے کی تیاری میں بھی اپنی جودتِ طبع کا رنگ جمایا۔ اُنہوں نے کبھی کبھار رپورٹنگ بھی کی۔
نیُوز ٹیم کے ان چاروں ارکان کا اپنا اپنا طبعی مزاج تھا، لیکن ان میں کُچھ چیزیں مُشترک تھیں: مُطالعے کا شوق، ادب کا ذوق، انتھک محنت کا جذبہ، کام کے معیار کا ادراک، ذِمّے داری کا احساس، اور مزاح سے لُطف اندوز ہونے کی لطیف حس۔ مُنزّہ کے مزاج کا ایک پہلُو بہت نُمایاں تھا، اُس کا لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے کا دو ٹوک انداز، وہ اپنے اُصُولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کرتی تھی، جس بات کو غلط تصور کرتی اُسے برملا غلط کہتی اور اس سلسلے میں کسی مصلحت کوشی کو روا نہیں سمجھتی تھی۔
وہ بھی کیا دن تھے، جب راولپنڈی اسلام آباد ٹیلیویژن مرکز چکلالہ کی ایک سابق فوجی بیرک میں تھا۔ قریب ہی ایک گراؤنڈ تھی جہاں کبھی کبھار نوجوان کرکٹ کی پریکٹس کرتے تھے۔ اس گراؤنڈ کے ایک کونے میں مِیرُو کا ڈھابہ تھا جسے ذرا مُہذّب لہجے میں کینٹین کہہ لیجئے۔ ہمارے نیُوز رُوم کے ساتھی بھی،کام سے تھوڑی فُرصت ملنے پر، میرُو کے ڈھابے کے پہلُو میں نشست جماتے اور کڑک چائے کی چُسکیوں کے ساتھ ہلکی پھُلکی باتوں سے شاد کام ہوتے۔ ان محفلوں میں رضوی صاحب کی نُکتہ آفرینی، ضیاء الدّین بٹ کے چٹکلے، ایم زیڈ سُہیل کے شگوفے، رفیق گورایہ کے فَلک شگاف قہقہے، پرویز بھٹی کی برجستہ گوئی اور جاوید علی کا موقعے کی مناسبت سے اساتذہ کے برمحل شعر پڑھنا، کیف کا دلآویز رنگ باندھتے۔ مُجھے شاذ ہی ایسی محفلوں میں شرکت کی سعادت ملتی کیونکہ میرا زیادہ وقت فیلڈ سے رپورٹنگ کی نذر ہوتا تھا۔
مُنزّہ جاوید کی کام سے لگن اور دفتری مُعاملات میں سخت ڈسپلن ایسی خُوبیاں تھیں جن کے سبھی مُعترف تھے۔ اُس کی شخصیت کا ایک اور پہلُو بھی قابلِ ذکر ہے۔ مُنزّہ نے پیشہ ورانہ مصرُوفیات اور گھریلو ذِمّے داریوں کے باوُجُود طلبِ علم کی لو مدھم نہ ہونے دی۔ اُنہوں نے گھر گرہستی کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھی اور اِبلاغیات میں ایم فِل کی ڈگری حاصل کی۔
نجانے کیوں، ایک وقت ایسا آیا جب مُنزّہ کا جی عملی صحافت سے اوبھ گیا، اور اُس نے پی ٹی وی میں اپنے عُہدے سے قبل از وقت سُبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا۔ اب اُس کی منزل تھی ایم اے کی سطح پر اِبلاغیات کی تدریس۔ کوکب برسوں پہلے امریکہ سدھار گئی تھی۔ میں سمجھتا ہُوں کہ اگر مُنزّہ اور کوکب پاکستان ٹیلیویژن سے ترکِ تعلق نہ کرتیں، تو وہ دونوں بھی مُزمّل احمد خان اور شاذیہ سکندر کی طرح ڈائریکٹر نیُوز کے منصب پر فائز ہوتیں، اور یہ بات یقیناً پی ٹی وی کے لئے باعثِ افتخار ہوتی۔