جامعات کی خود مختاری پر حملہ ،کراچی ودیگر جامعات کے طلبہ میں دوہرا معیار کسی صورت قبول نہیں منعم ظفر خان

کراچی (صباح نیوز)امیرجماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے اتوار کے روز ادارہ نورحق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ سن لیں کہ جامعات کی خود مختاری پر حملہ ،کراچی اور سندھ کی دیگر یونیورسٹیز کے طلبہ میں دوہرا معیار کسی صورت قابل قبول نہیں ۔8دسمبر کو کراچی میں ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ منعقد ہورہا ہے ، ہمارا مطالبہ ہے کہ 12886طلبہ کے لیے کراچی میں مراکز بڑھائے جائیں ، اس کے لیے ایکسپو سینٹر کا استعمال کیا جائے ،اس سال اور گزشتہ سال جو لوگ بھی ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کا پیپر لیک کرنے میں شامل تھے ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے اور ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ صاف و شفاف بنایاجائے ۔،کراچی یونیورسٹی پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ ہے ،ہم انجمن اساتذہ جامعہ کراچی ،فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمی اسٹاف ایسوسی ایشن کے تمام جائز مطالبات جو جامعات کی خود مختاری کے حوالے سے ہیںمکمل حمایت کرتے ہیں۔ جامعات کے اساتذہ نے پورے سندھ میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے ،یوم سیاہ منانے کا مقصد تعلیمی اداروں میں سفارش، دھونس اور کرپشن کے نظام کو ختم کرنا ہے ،ہم جامعات کے یوم سیاہ کی پرزور حمایت کرتے ہیں ۔منعم ظفر خان کا کہنا تھا کہ ٹینکر مافیا سندھ حکومت اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی سرپرستی میں شہرمیں کھلے عام گھوم رہے ہیں ،کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کو اپنا نام تبدیل کر کے ٹینکر کارپوریشن رکھ لینا چاہیے ،گزشتہ 2ماہ میں نیپا، صفورہ ،ماڈل ٹاؤن ،کورنگی سمیت کراچی کے دیگر علاقوں میں ڈمپر اور ٹینکر کے ذریعے سے معصوم شہریوں کی ہلاکت کے درجنوںواقعات رونما ہوئے ہیں ۔سندھ حکومت بتائے کہ کیا شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کون کرے گا؟،قابض میئر مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں کہ جب کراچی کے تاجر وں سے ٹیکس کی بات کرو تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں ، سیالکوٹ کے تاجروں نے اپنی ایئرلائن بنالی ہے ، قابض میئر مرتضیٰ وہاب سن لیں کہ کراچی کے تاجر شہر کے انفرااسٹرکچر کو ٹھیک کرنے اور سسٹم کو ختم کرنے کا مطالبہ غلط نہیں کررہے ، اگر سیالکوٹ میں ایئرلائن کے لیے رن وے بن رہا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ سسٹم کا نہ ہونا ہے۔

منعم ظفر خان نے مزیدکہاکہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت شہر کے تعلیمی اداروں کے ساتھ بھی وہی سلوک کررہی ہے جو اس نے کراچی کے اداروں کے ساتھ کیا ہے  جامعہ کراچی میں اساتذہ کرام کی پروموشن پر پابندی لگادی گئی ہے ، ایک مرتبہ پھر سے جامعات کی خود مختاری پر حملہ کیا جارہا ہے ،جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کہتے ہیں کہ 16506طلباء ڈیفالٹر ہیں جنہیں 2020تا2024 ، 2ارب 10کروڑ روپے میں فیسوں کی مد میں ادا کرنا ہے ،طلبہ کو فیس ادا کرنا چاہیئے لیکن وائس چانسلر طلبہ کی فہرست نکالنے کے بجائے یہ بتائیں کہ کورونا2019کے بعد تعلیم کی کیا صورتحال ہوگئی ہے ،2سال تک تعلیمی ادارے عملاً بند رہے ، 2022تک آن لائن کلاسز ہوتی رہی ، ایسے میں طلبہ کی ڈگریاں روکنا اور امتحانات میں نہ بٹھانا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ، وائس چانسلر کو سندھ حکومت سے بات کرنے چاہیئے بجائے اس کے کہ وہ طلبہ کی فہرست جاری کریں ۔پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کا تعلیمی حوالے سے بھی دوہرا معیار ہے ، کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد 45ہزارجب کہ سندھ یونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد 22ہزار ہے اس کے باوجود کراچی کے 45ہزار طلبہ کے لیے صرف 28بسیں اور سندھ یونیورسٹی کے 22ہزار طلبہ کے لیے 70بسیں ہیں ، دوسری جانب کراچی اور سندھ یونیورسٹی کے طلبہ کی فیسوں میں 5گناہ فرق ہے ، ہونا تو یہ چاہیئے کہ جو فیس سندھ یونیورسٹی کے طلبہ سے وصول کی جاتی ہیں وہی فیس کراچی یونیورسٹی کے طلبہ سے بھی وصول کی جائیں ۔انہوں نے مزیدکہاکہ ڈمپر اور ٹینکرکی ٹکر سے ہونے والی قیمتوں جانوں کے ضیاع کی ذمہ داری براہ راست سندھ حکومت اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن پر عائد ہوتی ہے ۔صبح و شام ٹینکر سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں جو کہ شہریوں کے لیے وبال جان بن چکے ہیں ۔دن کی روشنی میں جیسے ہی سامان سے لدی ہوئی سوزوکیاں سڑکوں پر آتی ہیں تو ٹریفک پولیس کے اہلکار شکاریوں کی طرح انہیں پکڑتے ہیں اور ان سے پیسے لے کر چھوڑا جاتا ہے جب کہ دوسری جانب ڈمپر اور ٹینکر 24گھنٹے سڑکوں پر گھوم رہے ہوتے ہیں ، پانی سپلائی کا دھنداعروج سے جاری ہے ۔سندھ حکومت بتائے کہ وہ کون سا شہر ہے جہاں ٹینکروں کے ذریعے سے پانی حاصل کیا جاتا ہے ؟ واٹراینڈ سیوریج بورڈ کے لیے شرم کا مقام ہے کہ وہ اعلان کرتا ہے کہ ہم نے سالانہ 1ارب 62کروڑ روپے منافع کمایا، شہریوں کو نلکوں میں تو پانی نہیں دیا جاتا لیکن مہنگے داموں پانی فروخت کیا جاتا ہے ۔گزشتہ 16سال سے سندھ پر قابض پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت اور اس کے وزیر کہتے ہیں کہ ہم نے کراچی سمیت پورے سندھ کے عوام کی خدمت کی ہے ، کراچی کے شہری آج بھی مہنگے داموں ٹینکر کے ذریعے پانی خریدنے پر مجبور ہیں ،پیپلزپارٹی 16سال سے شہریوں کو پانی ایک قطرہ بھی اضافہ نہیں کرسکی،کے فور منصوبہ پر بار بار ڈیڈ لائن دی جاتی ہے لیکن منصوبہ مکمل نہیں ہوتا اور اب دسمبر 2025میں مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن دی جارہی ہے اور حالات یہ بتارہے ہیں کہ یہ ابھی بھی صرف کاغذی کارروائی ہے جو مکمل نہیں ہوسکے گا۔

منعم ظفر خان کاکہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت خدمت نہیں بلکہ کراچی کو لوٹنے میں مصروف ہے ۔کراچی سمیت اندرون سندھ میں سسٹم کے نام پر عوام کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے ،کریم آباد میں انڈر پاس بنانے کے لیے جون 2023میں آغاز کیا جسے جون 2025میں مکمل ہونا ہے جس کی لاگت 1.3ارب روپے رکھی گئی ہے ۔مینابازار، فیصل بازار اور اہل محلہ شدید اذیت کا شکار ہیں ، کاروبار نہ ہونے کے برابر ہوگیا ہے ،المیہ یہ ہے کہ 1.3ارب کا منصوبہ 3.8ارط رپے کا ہوگیا جس پر ابھی تک 20فیصد کام بھی مکمل نہیں ہوا ۔

اسی طرح ریڈ لائن کا منصوبہ بھی پیپلزپارٹی کی اعلیٰ شاہکار ہے ،یہ منصوبہ 2023میں میں مکمل ہونا تھا جو تاحال مکمل نہیں ہوسکا۔یہ پیپلزپارٹی کی خدمت کی اعلیٰ مثالیں ہیں ، یہ وہ سارے لوگ ہیں جنہیں فارم 47کے ذریعے عوام پر مسلط کیا گیا ہے ،بی آرٹی اورنج لائن کا منصوبہ بھی پیپلزپارٹی کا اعلیٰ نمونہ ہے جسے 6سال میں مکمل کیاگیا ،3.8کلومیٹر پر مشتمل ٹریک میٹرک بورڈ آفس تا گلشن ضیاتک بنایا گیا جس سے اورنگی ٹاؤن کے عوام کو ایک فیصد بھی فائدہ حاصل نہیں ہورہا ۔اس موقع پر نائب امیرجماعت اسلامی کراچی راجا عارف سلطان ، ڈپٹی سکریٹری کراچی و بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر قاضی صدر الدین ، سکریٹری اطلاعات زاہد عسکری اور سکریٹری پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی نجیب ایوبی بھی موجود تھے۔