غزہ میں ایسا لگتا ہے جیسے ایٹم بم پھٹ گیا ہو،میڈیکل ایڈ فار فلسطین


لندن (صباح نیوز)میڈیکل ایڈ فار فلسطین اور انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے تحت اس سال برطانوی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم غزہ میں ایک ماہ سے زیادہ وقت طبی امداد کے کاموں میں مصروف رہی ۔ ان کے مطابق انہوں نے بچوں اور بڑوں کے ایسے ایسے زخم دیکھیے جو انتہائی خوفناک تھے۔

ڈی ڈبلیو کے مطابق ڈاکٹر عمار درویش اور ڈاکٹر نظام محمود گزشتہ ایک سال کے دوران خیراتی اداروں میڈیکل ایڈ فار فلسطین اور انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) کے زیر اہتمام ایک میڈیکل ٹیم کے ساتھ بطور رضاکار غزہ کا دورہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے خان یونس کے ناصر اسپتال میں مریضوں کا علاج کیا۔دنیا بھر میں تنازعات کے شکار مختلف علاقوں میں کام کرنے کے باوجود انہوں نے غزہ میں جاری جنگ کے بعد پیش آنے والے واقعات کو’سب سے مشکل تجربات قرار دیا۔مانچسٹر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر درویش ٹراما سرجن ہیں اور ‘ڈیوڈ نوٹ فانڈیشن کے کلینیکل ڈائریکٹر بھی ہیں۔ وہ اس برس 10 تا 20 جنوری اور پھر 12 اگست سے ایک ماہ کے لیے غزہ گئے۔ دونوں مرتبہ وہ مقامی ڈاکٹروں اور دیگر طبی ٹیموں کے ساتھ کام کرتے رہے۔انہوں نے بتایا کہ وہ ‘خوش قسمت ہیں کہ وہ غزہ میں اپنے مشاہدات کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ کیوں کہ جنوری میں جب وہ غزہ گئے تھے تو رفح کے علاقے المواسی میں دیگر طبی عملے کے ساتھ ایک گیسٹ ہاس میں مقیم تھے، جب یہ عمارت اسرائیلی فضائی حملے کی زد میں آئی تھی۔انہوں نے بتایا، ”شکر ہے ہمیں معمولی زخم آئے اور ہم بچ گئے۔ یہ واقعی ایک معجزہ تھا۔ اگر وہ راکٹ تین یا چار میٹر نزدیک گرتا تو میں شاید آج آپ سے بات نہیں کر رہا ہوتا۔

دونوں مشنوں کے دوران ڈاکٹر درویش نے مقامی ڈاکٹروں کے ہمراہ شدید زخمیوں کا علاج کیا۔ ان زخمیوں میں تقریبا 70 فیصد مریض خواتین یا بچے تھے۔ان زخمیوں کے بارے میں انہوں نے بتایا، ”عمارتیں تباہ ہوتیں تو ملبہ گرنے سے لوگ زخمی ہوتے۔ بہت سے زخمی بمباری کے بعد میزائلوں کے ٹکڑے لگنے سے زخمی حالت میں ہمارے پاس پہنچتے۔ تیز دھاتی ٹکڑوں سے ان کے سر، پیٹ، اور سینے پر شدید زخم ہوتے۔ ایسے زخم جن کا ایک آپریشن کے ذریعے علاج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مریضوں کو اکثر کئی مرتبہ سرجری اور دیگر طرح کے علاج کی ضرورت ہوتی تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ غزہ میں طبی سہولیات دستیاب نہیں تھیں کیونکہ صحت کا نظام تباہ ہو چکا تھا۔ڈاکٹر درویش بتاتے ہیں کہ انہیں شدید زخمی نوجوان مریضوں کا علاج کرنا پڑتا تھالیکن پھر بھی امید کی کرن ہوتی تھی۔وہ بتاتے ہیں، ”دوسری مرتبہ گیا تو میرے پاس ایک چار سالہ زخمی بچی لائی گئی۔ اس کے سر پر گولی لگی تھی جو بالکل دماغ کے قریب تھی۔ جب وہ وہاں پہنچی تو بے ہوش ہو رہی تھی۔ ہم نے اسے علاج کے کے لیے سلا دیا اور سیدھا آپریشن تھیٹر لے گئے۔اس بچی کے علاج کے بارے میں ڈاکٹر درویش نے بتایا، ”ہم نے نیورو سرجن کے ہمراہ اس کا آپریشن کیا۔ پیچیدہ آپریشن کے بعد ہمیں امید نہیں تھی کہ وہ زندہ بچ پائے گی لیکن اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنی ماں کو پہچان کر اس کا نام پکارا۔جب وہ غزہ سے واپس آ رہے تھے تو اس سے دو روز قبل اس بچی کو ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا اور اسے بتایا کہ اب وہ گھر جا سکتی ہے۔ لیکن بچی نے جواب میں بتایا کہ ‘اس کا تو اب کوئی گھر نہیں ہے۔ڈاکٹر درویش کے مطابق غزہ میں درد کی دوا سے لے کر اینٹی بائیوٹکس تک، ہر قسم کی ادویات ناپید ہیں۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ مشرق وسطی میں تشدد بڑھا تو ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی جائے گی۔

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”میں نے 50 سے زیادہ امدادی مشنوں میں حصہ لے رکھا ہے لیکن غزہ کے حالات سب سے کٹھن ہیں۔ اب جب میں خبریں دیکھتا ہوں تو مجھے ڈر لگتا ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ مزید شہری ہلاکتیں اور زیادہ زخمی انسان، جیسے حالات ہیں یہ سلسلہ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس جنگ کو مزید کیسے برداشت کر سکتے ہیں یا یہ کہ اشیائے ضرورت کو کیسے بند رکھا جا سکتا ہے۔بڑی تعداد میں غزہ کے رہائشی عارضی خیموں میں مقیم ہیںبڑی تعداد میں غزہ کے رہائشی عارضی خیموں میں مقیم ہیں۔اگست میں ڈاکٹر درویش کے ساتھ ڈاکٹر محمود بھی غزہ جانے والی ایک طبی ٹیم کا حصہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں ایک اور ہی طرح کی دنیا دکھائی دی۔ہیمپشائر کے رہائشی ڈاکٹر محمود کا کہنا تھا، ”ایسا لگتا ہے جیسے ایٹم بم پھٹ گیا ہو۔ اس چھوٹے سے علاقے میں 10 تا 15 لاکھ لوگ جمع تھے اور حالات خوفناک تھے۔ آپ کو ہر جگہ خیمے نظر آتے ہیں۔ جب میں خیمے کہتا ہوں تو پلاسٹک اور قالین کے ٹکڑوں کو لکڑی کے سہارے کھڑے کیے گئے خیمے مراد ہیں۔انہوں نے بتایا کہ بہت سے مریضوں کو اتنی شدید چوٹیں آئیں کہ وہ علاج سے قبل ہی مر گئے۔ ”زخمیوں کو انتہائی خوفناک زخم آئے تھے۔ ہمارے پاس ایسے بچے آتے جو ڈرون حملوں میں زخمی ہوتے، جو کے دھماکوں میں اپنے اعضا کھو چکے ہوتے تھے اور ایسے بچے بھی جن کے سر پر گولی کا ایک نشان ہوتا جس سے واضح ہو جاتا کہ انہیں جان بوجھ کر گولی ماری گئی تھی۔ ایسا ہر روز ہوتا تھا۔

ان کا کہنا تھا، ”بہت سے مریض زندہ نہیں بچ پاتے تھے، ہم آن کا آپریشن کرتے اور ان میں سے بہت سے بعد میں مر جاتے۔ وسائل اور صفائی ستھرائی کی کمی کی وجہ سے بھی کئی مریضوں کے زخم خراب ہو جاتے تھے۔غزہ میں طبی عملے پر حملوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ”امدادی اور طبی کارکنوں کو نشانہ بنانا بہت حیران کن تھا۔ ایمبولینسوں کو اس وقت نشانہ بنایا جاتا جب وہ بم حملوں میں زخمی ہونے والوں کو علاج کے لیے لے جا رہی ہوتی تھیں۔امدادی سامان کیفراہمی پر عائد پابندی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر محمود کا کہنا تھا، ”طبی امداد فراہم نہیں کی جا رہی اور اس چھوٹے سے علاقے میں پندرہ لاکھ افراد کے لیے صابن اور شیمپو کی فراہمی پر بھی عجیب و غریب پابندیاں عائد ہیں۔ میں نے کبھی ایسا تنازعہ نہیں دیکھا جہاں لوگوں کو کونے میں دھکیلا جاتا ہے اور پھر بمباری کی جاتی ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہوا اور جو اب بھی ہو رہا ہے، ایسا دنیا کی کسی بھی آبادی پر نہیں ہونا چاہیے۔