رجسٹرار ہائی کورٹ کے خلاف توہین عدالت کا کیس ثابت نہ کیا تودرخواست گزار پر مثالی جرمانہ عائد کریں گے،سپریم کورٹ

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے قراردیا ہے کہ رجسٹرار ہائی کورٹ پورے صوبے کی عدالتوں کا سب سے بڑاانتظامی افسرہوتا ہے اگر اس کے خلاف توہین عدالت کا کیس ثابت نہ کیا تودرخواست گزار پر مثالی جرمانہ عائد کریں گے۔ روسٹر بنانا چیف جسٹس کاکام ہے جبکہ لسٹ بنانا رجسٹرار کاکام ہے۔ جبکہ عدالتی انتباہ کے بعد درخواست گزار مرزا محبوب بیگ کی وکیل افشاں غضنفر نے درخواست واپس لیتے ہوئے کہا وہ اس معاملہ پر عدالتی ہدایات کے مطابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو درخواست دیں گی۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے منگل کے روزمرزامحبوب بیگ اوردیگر کی جانب سے رجسٹرارسندھ ہائی کورٹ سہیل محمد لغاری کے خلاف کیس سندھ ہائی کورٹ سے کسی اورہائی کورٹ منتقل کرنے کے حوالہ سے عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے کے معاملہ پر دائر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزارکی جانب سے افشاں غضنفر بطور وکیل پیش ہوئیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ کیس ججز کے سامنے لگ رہا ہے اس میں رجسٹرارکاکیا قصور ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہناتھاکہ رجسٹرار کاکیا قصورہے اس کے خلاف کیسے توہین عدالت کی درخواست دی۔

جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ چیف جسٹس سندھ ہوئی کورٹ کودرخواست دے دیں کہ اس کیس کوکسی مخصوص بینچ کے سامنے لگادیں۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھاکہ روسٹر بنانا چیف جسٹس کاکام ہے جبکہ لسٹ بنانا رجسٹرار کاکام ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ رجسٹرار ہائی کورٹ پورے صوبے کی عدلیہ میں سب سے بڑاانتظامی افسرہوتاہے، ہم درخواست گزارکی وکیل کو تفصیل سے سنیں گے اوراگروہ رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کاکیس ثابت نہ کرسکیں توپھر درخواست گزارپر مثالی جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

جسٹس محمد علی مظہر کاوکیل کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس معاملہ پر سپریم کورٹ کے سارے فیصلوں کاحوالہ دے کردرخواست چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کودے دیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کور ٹ کو درخواست دیں۔ اس پر درخواست گزارکی وکیل نے درخواست واپس لیتے ہوئے کہا کہ وہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کودرخواست دیں گی۔ عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پرنمٹادی۔