افغانستان میں موجود انسانی بحران امن کیلئے خطرہ، دنیا مدد کیلئے آگے بڑھے، ماہرین


سلام آباد(صباح نیوز)ماہرین نے دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں موجودہ انسانی بحران کے فوری حل کیلئے آگے بڑھے کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے اوریہ پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرناک ہے۔

پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام افغانستان کی صورتحال کے پاکستان کی سلامتی پر اثرات کے حوالے سے منعقدہ ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ عالمی ممالک اپنے اپنے مفادات کی روشنی میں اس بات کا تعین کریں کہ مستقبل میں افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ کس طرح بات چیت کی جائے۔اس موقع پر افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر ایاز وزیر نے کہا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران ملکی معاملات پر طالبان کی گرفت انکی حکمرانی کی قابلیت کو ظاہر کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے ہمیں افغانستان میںاپنے اور پھر ہمیں دوسرے ممالک کے ساتھ ہم آہنگی سے علاقائی مفادات کا خیال رکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت طالبان حکومت کو درپیش بڑا مسئلہ انسانی بحران ہے۔ تاہم ناروے میں ہونے والے طالبان نمائندوں اور امریکی حکومت کے درمیان مذاکرات کے بعد دنیا نے افغان عوام کیلئے امداد بھیجنا شروع کر دی ہے۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں دنیا طالبان کے ساتھ تعلقات کار کا طریقہ کار طے کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کو بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ موثر طریقے سے ملک چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کو منصفانہ انتخابات کی طرف جانا چاہئے یا کم از کم افغان جرگہ بلانا چاہئے تاکہ وہ ریاست کے نمائندے کی حیثیت سے دنیا کے سامنے اپنی پوزیشن مستحکم کر سکے۔ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ افغانستان میں انسانی بحران طول پکڑرہا ہے اور یہ صورتحال پناہ گزینوں کی آمد، خوراک کی قلت کے حوالے سے پاکستان کیلئے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ خاص طور پر بلوچستان میں عسکریت پسند گروہوں کی نئی لہر نے ہمیں احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنے کی ترغیب دی ہے۔ انہوں نے اقوام عالم سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں خوراک اور پناہ گزینوں کے بحرانوں کو سنجیدگی سے لے بصورت دیگر اس سے علاقائی امن کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔معروف صحافی اور مصنف زاہد حسین نے کہا کہ افغانستان میں حالیہ تبدیلی نے ایک ایسی صورتحال پیدا کردی ہے جس نے پوری جغرافیائی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 20 سالوں سے ملک کاانحصار غیر ملکی امداد پر تھا اور اب بھی اسے اپنی معاشی بقا کیلئے امداد کی ضرورت ہے۔انہوں نے سیکورٹی خدشات پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا ۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کے رہنماو ں کو پناہ گاہ فراہم کی جنہیں 2006 کی کارروائیوں کے دوران افغانستان منتقل کیا گیا تھا اور وہ سرحد پار سے وزیرستان میں حملے کرتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ اس لئے افغانستان میں طالبان کے مکمل قبضے سے پاکستان کیلئے پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔پاکستان کے لئے سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ افغانستان میں حکومت کے خاتمے سے نہ صرف خطے بلکہ عالمی برادری بھی مخمصے کا شکارہو گی۔ دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر(ر) محمود شاہ نے کہا کہ ہم طالبان کی سابقہ حکومت سے واقف ہیں جو کا فی متنازعہ رہی ہے تاہم موجودہ طالبان حکومت کے پاس مرکزی اختیار کا فقدان ہے۔ افغان وزیر اعظم اتنے طاقتور نہیں ہیں۔ حکومت میں پالیسی ساز حلقوں میں اب بھی ابہام پایا جاتا ہے۔

انہوں نے طاقت کے ڈھانچے پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ خطے میں اپنے کردار کا ازسرنو جائزہ لے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پالیسیاں زمینی حقائق پر مبنی ہونی چاہئیں۔ اگر صورتحال مزید خراب ہوتی ہے تو پاکستانی حکومت کو طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے خیال پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور پھر ایک ٹھوس پالیسی طے کرنی چاہئے