پاکستان بزنس فورم نے حکومت سے اقتصادی ایمرجنسی کا مطالبہ کر دیا

کراچی(صباح نیوز)پاکستان بزنس فورم نے اقتصادی ایمرجنسی کا مطالبہ کیا کیونکہ ملک کو ڈالر کے مقابلے میں روپے  کی قدر میں غیر معمولی کمی کے ساتھ شدید اقتصادی چیلنج کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف قومی اقتصادی کونسل کو فوری طور پر این سی او سی کی طرز پر فعال کریں اور پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اس میں شامل کریں۔

اس کے علاوہ مسلح افواج کے سربراہ بھی اس کا حصہ بنیں تاکہ پاکستان کی معیشت کے بارے میں ہنگامی بنیادوں پر فیصلے لئیے جا سکیں۔ پی بی ایف کے مرکزی نائب صدر چوھدری احمد جواد نے جاری بیان میں کہا کہ پاکستان کی معیشت اس وقت دلدل میں آچکی ہے ہر حکومت نے آکر نئے قرضے لیے اور عوام پر نئے ٹیکس لگائے۔

انہوں نے کہا کہ ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر انحصار اور بیل آٹ نے پاکستان کو قرضوں کے ایک کلاسک جال میں پھنسا دیا جہاں پرانے قرض کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ اس نے ملک کو آئی ایم ایف کی ایک قسط سے دوسری قسط تک چھوڑ دیا۔دوسری طرف پی بی ایف کے نائب صدر چوہدری احمد جواد نے کہا کہ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ اگست 2018 سے اب تک روپے کی قدر میں کمی ہماری آزادی کے 75 سالوں میں سب سے زیادہ ہے، ایک ڈالر کے مقابلے روپیہ 155 روپے گر گیا کسی دوسرے ملک میں اس قدر گراوٹ دیکھنے میں نہیں آئی۔ ہم نے بحران کی شدت کو سنجیدہ نہیں لیا۔ اب یہ ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ “فری فلوٹ پالیسی کو واپس لیا جائے “۔پی بی ایف نے سود کی شرح کو کم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ یہ اضافہ کاروباری سرگرمیوں کی گھٹتی ہوئی ترقی کو متاثر کرے گا اور معیشت میں مزید مندی کا سبب بنے گا۔

احمد جواد مزید نے کہا کہ ملک میں صنعت کاری کو براہ راست نقصان پہنچا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت پر واضح کر تے ہیں کہ جب تک توانائی کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جاتی صنعت نہیں چل سکتی۔انہوں نے بتایا کہ 45 ہزار میگاواٹ کی گنجائش کے مقابلے مین ٹرانسمیشن لائن میں صرف 22 ہزار میگاواٹ بجلی آتی ہے تاہم صارفین کو غیر استعمال شدہ بجلی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں آئی پی پیز کے ساتھ غیر منصفانہ معاہدوں کی وجہ سے کیپیسٹی چارجز میں قیمت کا 56 فیصد ادا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صنعت بجلی کے اس نرخ پر فیکٹری کو فعال رکھنے سے قاصر ہے اور اس نے کام بند کرنا شروع کر دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ ٹیرف کی وجہ سے تقریبا 25 فیصد صنعت پہلے ہی بند ہو چکی ہے اور ہزاروں  لوگ آپریشن بند کرنے کے لیے قطار میں ہیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ یہ بحران ملک میں بے روزگاری میں اضافے اور ملکی برآمدات میں بڑے پیمانے پر کمی کا باعث بنے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے نتیجے میں ٹیکس ریونیو میں بھی کمی آئے گی۔بجلی کے نرخوں پر نظر ثانی ایک سنجدیدہ معاملہ ہے اور حکومت کو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری اقدام اٹھانا چاہیے، ورنہ ایک بار صنعت بند ہونے کے بعد دوبارہ بحال نہیں ہو سکتی۔

کاروباری برادری طویل مدتی نمو حاصل کرنے اور 2030 کے آخر تک 100 بلین ڈالر لانے کے لیے ملک اور حکومت کی مدد کرنے کے لیے پرعزم ہے، لیکن اس کے لیے بجلی کے ٹیرف جیسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پیداواری لاگت کو کم کیا جا سکے تاکہ ہماری صنعت مقابلہ کر سکے۔ پاکستان بزنس فورم کا مزید  کہنا تھا کہ اس صورتحال کی وجہ سے صنعت کے شعبے میں نئی سرمایہ کاری رک گئی ہے- سمجھ سے بات بلاتر ہے وزیر توانائی آپی پی کے معادوں کو سپورٹ کر رہے، یہ کیسے معاہدے ہیں جو ملکی معیشت سے بٹرھ کر ہیں۔ ہمیں لبرلائزیشن پرائیویٹائزیشن اور گلوبلائزیشن کی طرف جانا ہوگا ۔