ملک میں بجٹ کی آمد ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف سے بھی ایک قرض معاہدہ پر بات جاری ہے۔ جس کی شرائط بھی آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں۔
ایک بات سب کے سامنے ہے کہ پاکستان کو خود انحصاری کی طرف بڑھنا ہے۔ برآمدات میں اضافہ کرنا ہے اور درآمدات کو کم کرنا ہے۔ ہر وہ چیز جو ہم خود بناتے ہیں یا بنا سکتے ہیں اس کی درآمد کی حوصلہ شکنی کرنی ہے۔ جو چیز پاکستان میں بنتی ہے اس کی درآمد پاکستان کی معیشت کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس اصول سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
پاکستان میں گاڑیاں بنتی ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان 48ممالک میں شامل ہے جہاں گاڑیاں بنانے کے کارخانے موجود ہیں۔ پاکستان میں اس وقت بارہ کمپنیاں ہیں۔ ان میں سے کچھ گاڑیاںبنا رہی ہیں کچھ ایک خاص اسکیم کے تحت ابھی صرف اسمبل کر رہی ہیں۔ لیکن یہ رعایت بھی ایک خاص مدت تک انھیں حاصل ہے، جس کے بعد انھیں بھی گاڑیاں پاکستان میں بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہیں۔
یہ سوال ضرور ہے کہ کونسی کمپنی گاڑی کے کتنے پارٹس پاکستان میں بنا رہی ہے اور کتنے فیصد پارٹس ابھی پاکستان میں درآمد کیے جا رہے ہیں۔
یہ سوال جب گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں سے کیا جائے تو ان کی مشکلات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ جن وجوہات کی وجہ سے باقی پارٹس پاکستان میں نہیں بن پا رہے ان مشکلات کو دور کرنا ہے۔ جیسے اسٹیل مل نہ ہونے کی وجہ سے گاڑی کا اسٹیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہم شیشہ نہیں بناتے اور اس وجہ سے شیشے کے پارٹس بھی باہر سے آتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کچھ گاڑیوں کے ساٹھ فیصد اور کچھ کے اس سے بھی زیادہ پارٹس پاکستان میں بن رہے ہیں۔
ایک طرف گاڑیاں بنانے والے پلانٹ پاکستان میں روزگار دے رہے ہیں دوسری طرف گاڑیوں کے پارٹس بنانے کے بھی پچاس سے زائد پلانٹس ملک میں موجود ہیں۔ آٹھ لاکھ سے ز ائد لوگ پاکستان میںآٹو انڈسٹری میں برسر روز گار ہیں۔ پاکستان میں آٹو انڈسٹری گزشتہ دو سال سے مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔
کچھ چیلنجز سے تو آٹو انڈسٹری نے خود ہی نبٹنا ہے اور حکومت اس میں ان کی کوئی خاص مدد نہیں کر سکتی۔ میں اس بات کا حامی ہوں کہ پاکستان کی حکومت کو گاڑیاں بنانے کی صنعت کی سخت مانیٹرنگ کرنی چاہیے۔ ان کی سخت ریگولیشن ہونی چاہیے۔ ان کو پابند کرنا چاہیے کہ یہ گاڑیوں کے سو فیصد پارٹس پاکستان میں بنائیں۔ جو پاکستان میں بن سکتا ہے وہ پاکستان میں بننا چاہیے۔ گاڑیوں کا معیار عالمی معیار کے مطابق ہونا چاہیے۔ بہترین کوالٹی اور بہترین ٹیکنالوجی پاکستان میں کنزیومرز کا بھی حق ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جب پاکستان میں اب بارہ قسم کی گاڑیاں بن رہی ہیں۔ لہذا پاکستان میں گاڑیوں کی برآمد بند ہونی چاہیے۔ جب ہم گاڑیاں بنا رہے ہیں تو مقامی گاڑیاں ہی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ میں تو نئی گاڑیوں کی درآمد کے بھی حق میں نہیں ہوں۔ لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ پاکستان میں پرانی گاڑیوں کی درآمد کی بھی اجازت ہے۔
یہ تو ایسے ہی ہے کہ ہم نئے اے سی بناتے ہیں اور دنیا بھر سے پرانے اے سی منگوانے کی اجازت دے دیں۔ ایسا دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا۔ یہ پرانی گاڑیوں کی درآمد بھی پاکستان میں بلیک مارکیٹ کی ایک شکل ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سال تیس فیصد پرانی گاڑیاں فروخت ہوئی ہے۔ پاکستان مارکیٹ کا تیس فیصد حصہ پرانی گاڑیوں نے حاصل کر لیا ہے۔
جو پاکستانی معیشت کے لیے کوئی مثبت صورتحال نہیں ہے۔ا س سے پاکستان کا کافی نقصان ہوا ہے۔ پرانی گاڑیاں درآمد کرنے کی پاکستان میں کوئی باقاعدہ پالیسی نہیں ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان واپسی پر ایک پرانی گاڑی لانے کی اجازت ہے۔ اس کو گفٹ اسکیم بھی کہا جاتا ہے۔ ورنہ پرانی گاڑیوں کی درآمد روکنے کی کوئی باقاعدہ پالیسی نہیں ہے ۔ کوئی پاکستان میں بیٹھ کر پرانی گاری درآمد نہیں کر سکتا۔ اب کھیل کیا ہے۔
بیرون ملک پاکستانی بالخصوص عرب ممالک میں چھوٹے روزگار کے لیے لوگ جو مزدوری کرتے ہیں۔ چھوٹی موٹی نوکریاں کر تے ہیں۔ ایک مافیا ان سے ان کا پاسپورٹ لیتا ہے۔ اس وقت پاکستان کا ریٹ پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ہے۔ ان سے پاسپورٹ لے کر ان کے نام پر گاڑی درآمد کی جاتی ہے۔ ان کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ان کے نام پر کونسی گاڑی درآمد کی جا رہی ہے۔ وہ بیچارے تو پیسے لے کر سائیڈ پر ہو جاتے ہیں۔
اس کے بعد پاکستان سے پیسے ہنڈی اور حوالہ سے بیرون ملک جاتے ہیں۔ جس کا پاسپورٹ ہوتا ہے وہ تو گاڑی درآمد کر ہی نہیں رہا۔ اس کا تو صرف نام اور پاسپورٹ استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے پیسے پاکستان کی بلیک مارکیٹ سے ہی جاتے ہیں۔ گزشتہ سال جاپان سے تیس ہزار پرانی گاڑیاں آئی ہیں۔ کیا جاپان میں تیس ہزار پاکستانی ہیں اور کیا وہ پرانی گاڑیاں پاکستان لائے ہیں۔ سب جھوٹ ہے۔ دراصل گزشتہ ایک سال میں جاپانی کرنسی ین کی شرح میں کمی ہوئی ہے۔
اس لیے وہاں پرانی گاڑیاں سستی ہوئی ہے۔ کرنسی کم ہونے سے پرانی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کا پاکستانی مافیا نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔اس کے علاوہ سونے پر سہاگا پاکستان میں بھی پرانی گاڑیوں کے ٹیکس کی شرح میں کمی کر دی گئی ہے۔ سارا کھیل ایک ایس آر او کے ختم ہونے سے شروع ہوا۔
اور اس طرح ملک میں پرانی گاڑیاں درآمد کرنے والوں کی چاندی کر دی گئی۔ اور مقامی گاڑیاں بنانے والی فیکٹریوں کے لیے مشکلات پیدا کر دی گئیں۔ اب صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ پاکستان میں بننے والی گاڑی پر ٹیکس زیادہ ہے اور درآمد کی جانے وا لی گاڑی پر ٹیکس کم ہے۔ ایسا کہاں ہوتا ہے۔ہم ملک میں بننے والی گاڑیوں کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں اور بیرون سے ملک سے آنی والی پرانی گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
یہ کیا پالیسی ہے کہ ہم بیرون ملک پاکستانیوں کو پرانی گاڑیاں لانے کی اجازت دیکر ہی خوش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہی زرمبادلہ پاکستان لا کر ہماری مقامی صنعت کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔ مقامی طور پر گاڑیاں بنانے والے تو صرف یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ کم از کم ٹیکس کی شرح برابر کر دی جائے۔ جو ٹیکس کی رعایت پرانی گاڑیوں کو دی گئی ہے وہ ناقابل فہم ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پرانی گاڑی کی درآمد ایک فراڈ ہے۔ ایک بلیک مارکیٹ ہے۔
ہماری حوالہ ہنڈی کی مارکیٹ کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔اس لیے اس اسکیم کو بند ہونا چاہیے۔ یہ پالیسی ختم ہونی چاہیے۔ جب گاڑیاں پاکستان میں بن رہی ہیں تو سب کو پاکستان میں بنی ہوئی گاڑیاں استعمال کرنے کا پابند بنایا جائے۔ کسی کو بھی امپورٹڈ گاڑی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جن ممالک میں بھی گاڑیاں بن رہی ہیں ۔ وہاں یہی پالیسی ہے۔
اس کے بغیر مقامی گاڑیوں کی صنعت چل ہی نہیں سکتی۔پرانی گاڑیوں کی درآمد کوئی نوکریاں نہیں پیدا کرتی ہے۔ بلکہ بے روزگاری میں اضافہ کرتی ہے۔
اس لیے حکومت پاکستان کو اب اس چور بازاری کا راستہ بند کرنا ہوگا۔ہمیں اپنی مقامی صنعت سے جو گلے ہیں اس کے لیے سخت پالیسی بنائی جانی چاہیے۔ان کو سو فیصد گاڑی بنانے کا پابند بنانا چاہیے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر اس پر کام کرنا چاہیے۔ لیکن سو فیصد امپورٹڈ گاڑی کوئی پالیسی نہیں۔ ہمیں گاڑیاں ایکسپورٹ کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ افریقہ ہماری مارکیٹ ہو سکتا ہے۔ جہاں گاڑیں نہیں بنتی وہاں ہماری گاڑیاں جانی چاہیے۔ یہی پاکستان کا مفاد ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس