گزشتہ چند ہفتوں سے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ آمنے سامنے کھڑی نظر آ رہی ہے جس سے یہ خوف بہت سے ذہنوں میں پیدا ہو رہاہے کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا اور ایسے ہی چلتا رہا تو دونوں اہم ترین اداروں کے درمیان یہ لڑائی بڑھ کر کسی بڑے بحران کا سبب بن سکتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال ملک میں کسی نئے اور بڑے بحران کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایسے وقت میں جب معاشی اشاریے کچھ بہتری کے آثار دکھانا شروع کر رہے ہیں اور پاکستان کو معاشی چیلنجز سے نبٹنے کیلئے اہم اصلاحات کرنے کیلئے سسٹم کو ایک استحکام کی ضرورت ہے، سیکورٹی و فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان موجود تناؤ کا بڑھنا کسی کی جیت نہیں ہو سکتا بلکہ اس میں سب کی ہار ہو گی۔ اس صورتحال کا سب کو ادراک ہونا چاہیے تاکہ اس تناؤ اور لڑائی کو بڑھنے سے روکا جائے۔ اگر ایک طرف عدلیہ کے معاملات میں ایجنسیوں کی مداخلت کا روکا جانا ضروری ہے تو دوسری طرف ججوں کو بھی دفاع اور سیکورٹی سے جڑے معاملات پر فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کے تحفظات کو سمجھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر یہ ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے دفاع، سیکورٹی اور دہشتگردی جیسے معاملات میں فون ٹیپنگ جیسی سہولتوں سے مدد لی جائے لیکن یہ غلط ہو گا کہ کسی سیاستدان ، جج یا صحافی کے فون ٹیپ کر کے اُن کو سیاسی مقاصد کے حصول یا بلیک میلنگ کیلئے لیک کیا جائے۔ جہاں غلط ہو رہا ہے اُسے عدلیہ کو ضرور روکنا چاہیے لیکن اگر ایجنسیاں یہ کہیں کہ فون ٹیپنگ سے متعلق کچھ حساس معاملات ہیں جن پر کھلی عدالت میں بات کرنے سے سیکورٹی Compromise ہو سکتی ہے جس کیلئے متعلقہ جج کے چیمبر میں بات کی جانی چاہیے توایسی درخواست پر عدلیہ کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ماضی میں جج، جرنیل اور سیاست دان کیا کیا کچھ کرتے رہے وہ سب کے سامنے ہے جس سے ہمیں بحیثیت قوم سبق سیکھ کر آگے ایسے انداز میں بڑھنا چاہیے کہ ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرے۔ فوج اور ایجنسیاں دفاع، سیکورٹی اور دہشتگردی جیسے اہم ترین معاملات پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں، عدلیہ عوام کو سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں رات دن ایک کرے، سیاستدان اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ میں جائز ناجائز سہارے تلاش کرنےکے بجائے اپنی سیاست کا مرکز ملک اور عوام کی خدمت کو بنائے رکھیں۔ اسی میں سب کا فائدہ اور ہر کسی کی عزت ہو گی۔ ہمیں مضبوط فوج، چوکس پر غیر سیاسی ایجنسیاں، آزاد عدلیہ اور ایسی پارلیمنٹ اور سیاسی حکومت چاہیے جو آئین پاکستان کے مطابق ملک و قوم کی خدمت میں دن رات ایک کر دے۔ لیکن سب کچھ ایک خواب کی طرح نظر آتا ہے۔ معاملات ہیں کہ سلجھنے کا نام نہیں لے رہے،جو ہم چاہتے ہیں اور جس جس ادارے سے جو امیدیں وابستہ ہیں اُس کا الٹ ہی ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں جہاں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان تناؤ کی صورتحال ہے اس کو ختم کرنے کیلئے صدر اور وزیراعظم کو خاموش تماشائی بننے کی بجائے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ صدر سے بات کریں کہ وہ دونوں اداروں کے درمیان موجودہ کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ صدر پاکستان کے عہدےکی نوعیت ایسی ہے کہ وہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس حضرات کے ساتھ ساتھ فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کی اعلیٰ قیادت کا وزیر اعظم کی موجودگی میں ایک اجلاس بلا سکتا ہے جس کا واحد مقصد اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان موجودہ کشیدگی کوختم کرناہونا چاہیے۔دیکھتے ہیں اس بارے میں صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں یااداروں میں کشیدگی کے بڑھنے کا انتظار کریں گے؟
بشکریہ روزنامہ جنگ