زخمی شیر اور قیدی چیتا!! : تحریر سہیل وڑائچ


بات زخمی شیر اور قیدی چیتے کے درمیان کشیدگی پر آکر پھنسی ہوئی ہے۔ زخمی شیر کو ماضی کے زخموں کی یاد بھلائے نہیں بھولتی اور قیدی چیتے کی ساری سیاست کا محور ہی شیر کی مخالفت رہی ہے۔ زخمی شیر کو 1990ء سے لے کر 2018ء تک پورے 28 سال پانچ دریاؤں کی سرزمین پر ووٹ کی غالب اکثریت ملتی رہی، اسے زخم یہ لگا ہے کہ چیتا اس سرزمین کی مڈل کلاس کو کیسے اپنےساتھ ملانے میں کامیاب ہوا ہے۔ شیر کو پنجاب کے شہروں میں موجود ووٹرز بالخصوص تاجروں کی مسلسل حمایت حاصل رہی ہے۔ 2024ء میں چیتا قید تھا جنگل کے کارپردازان بھی اس کے خلاف مصروف عمل تھے انتخابی گھوڑوں کی اکثریت بھی بادل نخواستہ اس کاساتھ چھوڑ گئی تھی، پیش گوئیاں اور انتخابی انتظامات دونوں ہی سے یہ ظاہر تھا کہ اب جنگل کی حکمرانی شیر کو دی جائے گی مگر یکایک سارا منظربدل گیا۔ جاڑے کے انتخابات نے کارپردازان اور شیر دونوں کو شدید جھٹکا دیا، شیر کوگہرا زخم لگا اس نےایک قدم پیچھے ہٹ کر اپنے جڑواں شیر کو حکمرانی کیلئےپیش کردیا مگر زخمی شیر کا غصہ تو ضرب المثل ہے ،وہ تنہابیٹھ کر سوچتا رہا کہ غلطی کہاں ہوئی؟کیا بیانیے میں کوئی کسر رہ گئی تھی یا کارپردازان نے کوئی ہاتھ دکھا دیا تھا۔ یاد رہے وہ سوچتا بہت ہے کوئی بھی بات کرنے سے پہلے اس بات کو کئی لوگوں کے سامنے دہراتا ہے، اپنے گھر والوں حتیٰ کہ ملازموں سے بھی مشورے طلب کرتا ہے، وہ اپنے دل کی بات اور اپنافیصلہ کہیںگہرا ئی میں چھپا کر رکھتا ہے تاہم جب زخمی شیر کسی فیصلے پر پہنچ جاتا ہے تبھی وہ دھاڑتا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ شیر اب حتمی فیصلے پرپہنچ چکا ہے وہ سیاست سے ریٹائر نہیں ہوگا نہ ہی پیچھے ہٹے گابلکہ پارٹی کا صدر بن کرسیاست میں اور زیادہ متحرک ہوگا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فی الحال چیتے سے کسی قسم کی مفاہمت کیلئے تیار نہیں اسی لئے اس نے چیتے پر سیاسی حملوں کا آغاز کر دیا ہے، دوسری طرف وہ ان ججوں اور جرنیلوں کوبھی معاف کرنےپرتیار نہیں جو اسے اقتدار سے ہٹانے میں ممد و معاون رہے۔ گویا آنے والے دنوں میں زخمی شیر اور قیدی چیتے کی لڑائی اور بڑھے گی۔

قیدی چیتے نے اگلے روز مرشد کی طرح سپریم کورٹ کے اندر لگی چھوٹی سی سکرین کے ذریعے اپنے عقیدت مندوں کو درشن کروایا، چیتا قید میں رہ کر صحت مند اور ہشاش بشاش ہے۔ اس کی ہلکی نیلی شرٹ، شیوزدہ چہرہ اور رنگے ہوئے سیاہ بالوں سے لگا کہ جیتا ہار ماننے کو تیار نہیں۔ تاہم چیتے کی حواری کئی بھیڑ بکریاں بار بار اسے سمجھاتی ہیں کہ کارپردازان سے براہ راست لڑائی ٹھیک نہیں۔ ہوسکتا ہے چیتے نے ان کی بات سمجھ لی ہے یا پھر منہ کا ذائقہ بدلنے کی خاطر ہی سہی ،اس نے کہہ دیا ہے کہ فوج اور عوام کو آمنے سامنے نہیں ہونا چاہیے مگر کارپردازان کے رویے میں 9مئی کے حوالےسے لچک نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کارپردازان کو اپنے اتحادی شیروں اور کالے گاؤن پہننے والے منصفوں سے شکایت ہے۔ شیروں کے قبیلے سے ان کی شکایت یہ ہے کہ وہ کھل کر اور اپنی پوری طاقت سے قیدی چیتے کی سیاسی مخالفت کیوں نہیں کرتے اور منصفوں سے ان کا گلہ یہ ہے کہ 9مئی کے گناہ گاروں کو سزا دینے کے راستے میں یہ کیوں رکاوٹ ہیں۔ آئی ایس پی آر کے جنرل اور سپاہ کے سالار کا خود 9مئی کےملزموں کے خلاف سامنے آنا ایک طرف تو فی الحال چیتے کی جماعت کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتنےکا اشارہ ہے اور دوسری طرف اس اقدام سے یہ بھی شائبہ ہے کہ وہ شیروں کی سیاسی حکمت عملی پر مطمئن نہیں وگرنہ انہیں خود سیاست پر بولنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔

قیدی چیتے کی پسند نا پسند بہت گہری ہے، ایک بڑبولے انصافی ایم این اے ان دنوں بہت مقبول ہوئے ہیں مگر انہوں نے قیدی چیتے کے سامنے اونچا بول کر اپنی پوزیشن تباہ کرلی ہے اسی طرح چیتے کو جونہی پتہ چلتا ہے کہ اس کی کسی بھیڑ یا بکری کا کارپردازان سے گہرا رابطہ ہے تووہ فوراً اس سے فاصلہ پیدا کرلیتا ہے، قیدی چیتا غصے کا بھی تیز ہے اس کیفیت میں آ جائے تو اس کا دل کرتا ہے کہ جوتا اتار کر دوسرے کو مارنے لگے۔ چیتے کو جتنے بھی لوگوں نے مفاہمت کا مشورہ دیا ہے چیتے نے ان کی بات سنی اور پھر انہیں خود سے دور کردیا ۔ قیدی چیتے کو جب یہ پتہ لگا کہ اس کے وزیر اعلیٰ گنڈا پور کی وزیر داخلہ محسن نقوی سے بڑی خوشگوار ملاقات ہوئی ہے تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اس نے وزیراعلیٰ پر غصے کا اظہار کیا اور یوں مقتدرہ اور حکومت کی طرف سے انصافی منتخب نمائندوں کے ذریعے مفاہمت کی راہ نکالنے کی کوشش شروع میں ہی ناکامی کا شکار ہوگئی۔ چیتے اور اس کی کچن کابینہ کا خیال ہے کہ جون جولائی میں جڑواں شیروں کی حکومت معاشی مشکلات کا شکار ہو جائے گی بجلی کی قیمت بڑھے گی، مہنگائی آخری حدوں کو چھونے لگے گی ایسے میں عوام باہر نکلیں گے پھر مقتدرہ اور حکومت کیلئے نظام چلانا مشکل ہوجائےگا، چیتا اس وقت تک انتظار کرناچاہتا ہے۔ دوسری طرف کارپردازان کی تاریخ یہی رہی ہے کہ تصادم اور کشیدگی میں وہ، سیاسی مخالف ہو یا ریاستی دشمن ، اسے کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ اس بار کوئی انہونی ہو جائےتو ہی چیتا جیت سکتا ہے۔

قصہ مختصر ہماری خواہشوں کے برعکس مفاہمت کی بجائے پھر سےسیاسی لڑائی بڑھنے والی ہے۔ زخمی شیر اور قیدی چیتا دونوں وزیر اعظم رہے ہیں دنوں کو علم ہونا چاہیے کہ لڑائی اور کشیدگی کے زمانے میں ملک ترقی نہیں کرتے، خوشحالی تبھی آتی ہے جب سیاسی مفاہمت ہو، امن و امان کا دور دورہ ہو، لڑائیاں دم توڑ جائیں اور اس کی بجائے مفاہمتی فارمولوں کا چلن ہو۔ افسوس تو یہ ہے کہ نونی اور انصافی دونوں لڑنے پر آمادہ ہیں حالانکہ اس میں دونوں کا نقصان ہوگا۔ اصل میں غصہ انسان میں خود کشی تک کے جذبے کو پیدا کردیتا ہے اگرسیاسی کارکن ہی خود کشی پر آمادہ ہیں، جمہوریت کو بارود سے اڑانا چاہتے ہیں، آپس میں دست و گریبان ہونا چاہتے ہیں تو پھر اس ملک کی قسمت کیسے بدل سکتی ہے۔لڑنے کےبعد بھی بالآخر صلح ہوگی مگر پانچ دس سال ضائع ہوجائیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ