اب جب بھی سندھ میں روز بچیوں کو میٹرک کا امتحان دیتے، زمین پہ بیٹھے، بغیر بجلی اور پنکھے کے پسینہ پونچھتے اور گھٹنے پر رکھ کر پرچہ حل کرتے ہوئے دیکھتی ہوں تو میرا دل بلاول سے پوچھنے کو کرتا ہے کہ تمہارے جیالے16سال سے حکومت میں براجمان ہیں، یہ شکل تو صرف کراچی جیسے بڑے شہر کی ہے۔ اندرون سندھ میں نے بہت سے اسکولوں کے بچوں اور استادوں سے بات کی ہے۔ پہلے بھی لکھ چکی ہوں کہ استاد اور نوجوان ہنستے ہوئے کہتے ہیں اور یہ آج سے نہیں کتنے ہی برسوں سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ہاں تو کتاب دیکھ کر جوابات لکھنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ محکمہ بھی معترض نہیں ہوتا، آگے طلسم ہوشربا یہ کہ یہ سب بچے پاس ہوکر اپنی قومیت کی بنا پر نوکری حاصل کرنےمیں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تعلیم اور ہر شعبے کا یہ حال دیکھ کر پرائم منسٹر کا کہنا کہ کھیل سے لے کر زراعت اور ثقافت کیلئے مغربی ماہرین بلائے جائیں گے، وہ اس فرسودہ بلکہ مردہ سسٹم کو کیسے بدلیں گے۔
اب مریم بی بی سارے ناخواندہ بچوں کو پڑھانے اور پڑھنے والوں کو کھانا کھلانے میں ایمرجنسی نافذ کرنے میں دن رات کوشاں ہیں۔ میں ان سے بلکہ سارے صوبوں کے سربراہوں سے عرض کروں گی کہ ذرا موجود اسکولوں کی عمارتوں، اساتذہ اور سہولتوں کا جائزہ لیں اور پھر امریکی رپورٹیں جن میں لڑکیوں کےا سکولوں میں باتھ رومز بنانے کے جو پیسے دیے گئے، وہ کہاں خرچ ہوئے اور کتنے اسکولوں میں لڑکیوں کے باتھ روم ہیں۔ کھانے کی سہولت تو بعد کی بات ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی میرےجیسا پرانا بندہ ہے تو اس سے پوچھ لیں، یونیسیف نے بیس برس پہلے بہت پیسے دیے تھے۔ ان کی نگرانی کیلئے ٹیچرز بھی رکھی تھیں۔ نتیجہ صفر رہا۔ ایک اور اسکیم چلی تھی کہ ورکشاپس میں کام کرنے والے بچوںکیلئے شام کے وقت مقامی انتظامیہ کے تعاون سے تعلیم بالغاں اور کمسن کیلئے پرائمری اسکول کھولے جائیں گے۔ نتیجہ صفر، تعلیم بالغاںکیلئے غیر ملکی بجٹ بارہا رکھا گیا۔ خرچ تو ہوا مگر کہیں بھی عاقبت نہ سنور سکی۔
پاکستان میں تنخواہوں میں اضافہ یہ کہہ کر کیاگیا تھا کہ ملازمین کی تنخواہیں کم ہیں۔ اس لیے رشوت لیتے ہیں۔ یہ تجربہ آج تک کے ملازمین کے نامہ اعمال کھول کر دیکھ لیں، پھر ایم پی I اور ایم پیII کرکے لاکھوں میں تنخواہیں دی گئیں۔ ہر لیول کے گریڈ کے بعد، اگلی پروموشن سے پہلے ٹریننگ کورس ہوتا ہے، پھر سرکاری طور پر غیر ممالک میں بھی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ انجام ڈھاک کے تین پات۔
ڈاکٹروں اور پروفیسروں نے ایوننگ کا لج اور کلینک بناکر تنخواہ سے دس گنا زیادہ کمایا اور کما رہے ہیں۔ نگران دور میں زراعت کے محکمے کا باقاعدہ وزیر، ہمارا دوست لگایا گیا۔ مصروف اتنا تھا کہ دوستوں سے بھی ملنے کا وقت نہ تھا مگر گندم، یوکرین سے اسی کے زمانے میں منگوائی گئی، اب طوفان یہ ہے کہ سرکار کبھی کہتی ہے کہ ان کےپاس سال کی گندم موجود ہے، کسانوں کو اگلی فصل نہیں لگانے دیں گے، کیا فلسفہ ہے، دوسرے ملکوں سے منگا سکتے ہو تو ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کماؤ اور بے چارے کسانوں کو پٹواریوں اور آڑھتیوں کے ہاتھوں تباہ نہ ہونے دو۔
صحت کے معاملات میں حال ہی میں چنائی میں ایک19سالہ پاکستانی لڑکی کو کسی میت سے فوراً کے فوراً دل نکال کر لگایا گیا۔ اس آپریشن کاڈیڑھ لاکھ خرچ آیا۔ وہ بھی ڈاکٹروں نے خود انتظام اور جمع کرکے برداشت کیا۔ یہ واقعہ ایک مسلمان لڑکی کو بغیر کسی امتیاز کے ایک ہندو شخص کا دل لگاکر کیاگیا، ہمارے یہاں کراچی میں ہمارے بڑے ڈاکٹر ادارہ SIUT والے ایک زمانے سے یہ ترغیب دے رہے ہیں کہ لوگ میت کی آنکھیں، دل جو بھی لائق استعمال ہو، مریضوں کو وہ لگا دیے جائیں کہ یہ عمل ساری دنیا میں ہوتا ہے۔ ایک اور قابل تعریف بات یہ کہ مودی کی مذہبی جنونیت تو بس چلے تو سارے مسلمانوں کو زندہ درگور کردے، شکر ہے کہ ڈاکٹروں پر اس عصبیت کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ہمارے ملک میں معصوم جوانوں کے گردے نکال کر بیچنے اور انکی مرضی معلوم کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ خیر کچھ محبت والی باتیں کہ ہمارے بچوں نے ملایشیا میں سارے میچ بہت اچھے کھیلے اور فائنل میں ان کی ناتجربہ کاری کے باعث چوک ہوگئی، ورنہ ہمارے دیکھنے والے کہہ رہے تھے کہ یہ وہ ہاکی ہے جس نے پاکستان کو اصلاح الدین کی شکل میں ایسی عزت دلائی کہ حکومت اور اسپورٹس بورڈنےانہیں خوداختیاری سمجھا اور ساری توجہ اور سارے پیسے کرکٹ پر خرچ کر ڈالے۔ ہاکی کھیلنے والے بچوں کی نہ نوکریاں ہیں، نہ یونیفارم، نہ تربیت، پھر بھی بڑا حوصلہ دلایا۔ اب محسن نقوی، آئر لینڈ میچ دیکھنے گئے اور ہاکی کےبچے کو بھول گئے۔ اب ٹریننگ کیلئے بھی کرکٹ ایکسپرٹ باہر سے بلائے جارہے ہیں، جبکہ بنیادی بات خوراک اور صحت کی ہوتی ہے، جس کی تربیت سارے ممالک بچپن سے شروع کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو توصیف جیسے بالر ننگے پیرکھیلتے کھیلتے کرکٹ میں آگئے تھے۔ اب تو لڑکیوں کی والی بال، کرکٹ، باکسنگ تک لیاری سے اٹھ رہی ہے، ان کی جوانی ملک کا نام روشن کرے گی۔
سب سے اہم موضوع، سب سے آخر میں، وجہ یہ کہ ہمارے شہباز شریف صاحب نے تو بزنس کے لوگوں کو کہہ دیا تھا کہ انڈیا اور804کے مسئلے آپ حل کریں۔ ایک دم بیچ میں وہ بھی9مئی سے دو دن پہلے بہت غصے میں دو گھنٹے بولے، اس کے بعد پھر فوج کے سربراہ سے لے کر بی بی مریم تک بولیں۔ کہا کیا کہ ’’ہمیں تو چار مہینے پہلے سے پتہ تھا۔‘‘ اگر یوں تھا تو پہلے بولیں کیوں نہیں۔ تماشہ کیوں دیکھتی رہیں اور ہماری ایجنسیاں جن کے سربراہ بھی بڑی توپ ہیں، وہ کیا گھر پھونک تماشہ دیکھتے رہے۔ اب جو ڈیجیٹل انکوائری کا کہا جارہا ہے اور اس میں سن14میں ہونے والے دھرنوں سے اب تک کی تفصیلی انکوائری ہوگی تو قسم اس رب کی جس نے شیطان اور انسان، دونوں کو پیدا کیا، کیا اس میں مقتدر ہ کے سربراہوں کے نام بھی شامل ہوں گے کہ یہ انکوائری بھی لیاقت علی خان سے بھٹو، بے نظیراور مشال خان کی موت کے ذمہ داروں کو پردہ پوش کرتے ہوئے اپنے لہجے کو صبر کا نام دیا جائے، کشمیر سے کراچی اور گلگت میں ہونے والے مظاہروں میں عوام کا تنگ آکر سڑکوں پر آنے کا مطلب سمجھ لیں تو خود فوج اور حکومت کیلئے بہتر ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ